|

وقتِ اشاعت :   April 20 – 2021

پاکستان ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان نے صوبائی حکومتوں کو خط لکھ کر کہا ہے کہ سرکاری اور نجی اسپتالوں کے ڈاکٹر برانڈڈ ادویات کا نام لکھنے کی بجائے دوا کا فارمولہ تجویز کیا کریں۔ پاکستان ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے یہ خط وزیر اعظم ڈیلیوری یونٹ کی ہدایت پر لکھا ہے۔ڈائریکٹر فارمیسی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی ڈاکٹر عبدالرشید کی جانب سے لکھے گئے خط میں پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان، گلگت بلتستان اور کشمیر کے سیکریٹری صحت اورچیف کمشنر اسلام آبادسے کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر کسی برانڈڈ ادویہ کا نام تجویز کرنے کے بجائے عام فارمولہ تجویز کریں۔

خط کے متن کے مطابق وزیراعظم کے سٹیزن پورٹل پر شہریوں نے شکایت کی ہے کہ سرکاری اور نجی اسپتال کمپنیوں کی مہنگی ادویات تجویز کرتے ہیں۔ ڈاکٹروں کے اس عمل سے ملک کے معاشی بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ مریضوں کو مہنگے برانڈ کی ادویات خریدنے کی وجہ سے مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو میڈیکل اینڈ ڈینٹل پریکٹشنرز کے ضابطہ اخلاق کی بھی خلاف ورزی ہے۔ صوبائی حکومتوں کو ایسے اقدامات کرنے کا کہا گیا ہے جس سے ڈاکٹر کسی مفاد پر مبنی برانڈ کی ادویات تجویز کرنے کے بجائے عام فارمولہ تجویز کریں تاکہ ملک میں غریبوں کا بھلا ہو۔

ڈرگ لائرز فورم کے صدر اور فارماسسٹ نور مہر کا اس ضمن میںکہناہے کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی ہدایات میں واضح ہے کہ ڈاکٹرز فارمولہ تجویز کریں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس سے ادویات کی قیمتوں میں 20 سے 50 فیصد کمی آئے گی۔انھوں نے کہا کہ پاکستان پریکٹشنر ایکٹ اور ضابطہ اخلاق کے تحت ڈاکٹرز کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ فارماسوٹیکل کمپنیوں سے کسی قسم کی مراعات لے کر ان کی ادویات تجویز نہیں کریں گے۔ ڈاکٹرز ان کمپنیوں سے کئی طرح کی مراعات لیتے ہیں جن میں گاڑی، اے سی، فریج اور دیگر مراعات شامل ہیں لیکن جب وہ یہ مراعات نہیں لیں گے۔

توغریبوں کے لیے سستی اور معیاری ادویات لکھیں گے۔ دل کی بیماری کے لیے ایک دوائی 460 روپے جبکہ دوسری اچھی اور معیاری دوائی 49 روپے کی بھی مل رہی ہے۔ڈاکٹر مریض کش پالیسی کے تحت مہنگی ادویات تجویز کرتے ہیں۔ اسی طرح کینسر کے لیے عام ادویات بالکل بھی مہنگی نہیں ہیں لیکن ڈاکٹرز مہنگے برانڈ کی ادویات تجویز کرتے ہیں۔بہرحال یہ انتہائی بہترین اقدام اٹھایاگیا ہے اگر اس پر عملدرآمد کو سوفیصد یقینی بنایاجائے تو غریب عوام کیلئے علاج معالجے کے حوالے سے بہت سی آسانیاں پیدا ہونگی مگر اس بات کا خاص خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ جو سستی ادویات دستیاب ہیں ان کی کوالٹی کو لازمی چیک کیاجائے ۔

کیونکہ بدقسمتی سے میڈیکل اسٹورز کی بھرمار ہے جہاں جعلی ادویات کی فروخت عرصہ دراز سے جاری ہے کوئی چیک اینڈبیلنس نہیں ہے جبکہ ڈرگ ریگولیٹراتھارٹی کی ٹیم میڈیکل اسٹورز میںموجودادویات کا معائنہ تک نہیں کرتی خاص کر بلوچستان میں تو ہر شاہراہ پر قطار کے ساتھ میڈیکل اسٹورز قائم ہیں جن کے لائسنس تک کا کسی کو علم نہیں ہے کہ وہ قانونی طور پر یہ کاروبار کرر ہے ہیں یا پھر بغیر کسی لائسنس کے میڈیکل اسٹورچلار ہے ہیں اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ بلوچستان کے دارالخلافہ میں بعض ایسے مقامات بھی ہیں۔

جہاں پر نہ صرف جعلی غذائی اجناس کی فیکٹریاں قائم ہیں بلکہ ادویات بھی جعلی بنائی جاتی ہیں ۔کوئٹہ کے نواحی علاقوںمیں کارروائی کے دوران یہ معاملات سامنے آئے ہیں مگر گزشتہ کئی برسوں سے اس پر توجہ نہیں دی جارہی لہٰذا ضروری ہے کہ میڈیکل اسٹورز کے لائسنس اور ان میںموجود ادویات کی کوالٹی اور برانڈ کو چیک کیاجائے تاکہ انسانی زندگیوں سے کھیلنے والے عناصر بے نقاب ہوجائیں، نہ جانے کتنے ایسے افراد ہیں جو جعلی ادویات کی وجہ سے زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں اور یہ واقعات رپورٹ بھی نہیں ہوتے ۔دوسرا بڑا مسئلہ افغانستان سے یہاں اسمگلنگ کے ذریعے جس طرح اشیاء لائی جاتی ہیں۔

اسی طرح ادویات کی بڑی بڑی کھیپ لائی جاتی ہیں جو ہمارے یہاں بازاروں میں فروخت کئے جاتے ہیں اس حوالے سے بھی کارروائی ہوتا دکھائی نہیں دیتا ۔اب یہ ذمہ داری صوبائی حکومت کی بنتی ہے کہ جعلی ادویات کی فروخت اور اس کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے سختی سے اقدامات اٹھائے تاکہ عوام کی زندگی کے ساتھ گھناؤنا کھیل کا خاتمہ ہوسکے اور ڈریپ کے لکھے گئے خط پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنانا چاہئے تاکہ عام لوگوں کی دسترس میں سستے اور معیاری ادویات آسکیں۔