|

وقتِ اشاعت :   April 21 – 2021

وزیر خزانہ شوکت ترین نے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔گزشتہ روز میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے شوکت ترین نے کہا کہ آج وزارت خزانہ میں میرا پہلا دن ہے اور 11 سال بعد وزارت خزانہ میں آیا ہوں، مجھے نہیں معلوم یہاں کیا ہورہا تھا۔انہوں نے کہا کہ بہت جلد اپنی ترجیحات کا اعلان کروں گا جب کہ آئندہ بجٹ کی تیاری شروع کردی ہے، بجٹ پر وزارت خزانہ سے بریفنگ لی ہے، اس کے علاوہ 2 گھنٹے کے دوران معاشی امور پر بریفنگ لی ہے۔وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ معیشت کی بہتری کے لیے بہت سے منصوبے ہیں، میڈیا کو ترجیحات سے آگاہ کروں گا۔

دوروز قبل وزیراعظم عمران خان سے وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے ملاقات بھی کی تھی جس میں ملکی معاشی صورت حال پر غور کیا گیاتھا۔ملاقات میں ماہرمعاشیات اور مالیاتی امور کے ماہرین بھی شریک تھے، اس دوران وزیرخزانہ شوکت ترین سے موجود وفاقی وزراء اور دیگر نے معاشی پلان اور نجی ٹی وی چینل پر حکومت کی معاشی صورتحال پر تبصرے کے حوالے سے بھی سوال کیا جس پر وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ انٹرویو میں جو باتیں کی تھیں وہ صرف موجودہ حکومت سے متعلق نہیں تھیں اور کم دورانیہ کے پروگرام میںمعاشی صورتحال کی مکمل تفصیل نہیں بتائی جاسکتی، اس میںماضی کی حکومتوں کی معاشی صورتحال کے حوالے سے اشارہ دیا تھا۔

بہرحال دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیرخزانہ کا قلمدان جب شوکت ترین کے پاس نہیں تھا توانہوں نے معاشی پالیسی پر تنقید کی تھی جو ریکارڈ پر موجود ہے کہ اس وقت معاشی پالیسی غلط سمت کی طرف جارہی ہے بہرحال اب ان کانقطہ نظر معاشی حوالے سے موجودہ صورتحال کے تناظر میں یکدم سے مکمل تبدیل ہوگیا ہے یا پھر کابینہ کا حصہ بننے کی وجہ سے انہوں نے یوٹرن لیا ہے کیونکہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اب تک معاشی پالیسی پر ماہرین معاشیات کڑی تنقید کررہے ہیں جس کی وجہ سے باربار وزارت خزانہ کے قلمدان کو تبدیل کیاجارہا ہے ۔

جب پی ٹی آئی حکومت بنی تھی تو اسدعمر کو سب سے بہترین معاشی پالیسی میکر ثابت کیاجارہا تھا کہ وہ ایسی اصلاحات اور پالیسیاں بنائینگے کہ ملکی معیشت چند ماہ میں مثبت نتائج دینا شروع کرے گی نتیجہ بلآخر یہ نکلا کہ اسد عمر سے یہ قلمدان واپس لے لیاگیا اور پھر حفیظ شیخ نے جب مشیر خزانہ کا قلمدان سنبھالا تو شادیانے بجائے گئے کہ وہ وسیع تجربہ معاشی حوالے سے رکھتے ہیں پہلے بھی وزارت خزانہ کو انہوں نے چلایا ہے کہ کس طرح سے معاشی بحران سے نمٹاجاسکتا ہے اور موجودہ ملکی معاشی پالیسی کو بہتر بنانے کیلئے کون سی اصلاحات اور اقدامات ضروری ہیں جن سے ملکی معیشت جوبحرانات میں گِری ہوئی ہے۔

وہ چند ہی مہینوں میں ایشیاء کی بہترین معیشتوںمیں شمار ہوگی مگر انہیں سینیٹ انتخابات کی نشست ہارنے کے بعد اس قلمدان سے بھی ہٹادیا گیااور اب شوکت ترین کو یہ ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں اور انہوں نے گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی جس پر وزیراعظم عمران خان نے شوکت ترین کی صلاحیتوں پر مکمل اعتماد کا اظہار کر تے ہوئے کہا کہ شوکت ترین کو 35 سالوں سے جانتا ہوں، وہ شوکت خانم اسپتال کے بورڈ آف گورنرز کا بھی حصہ رہے ہیں۔شوکت ترین کا کہنا تھا کہ 49 سالہ معاشی تجربے کی بنیاد پرکہہ سکتا ہوں کہ معاشی مسائل کا صرف ایک ہی حل ہے کہ جی ڈی پی گروتھ کو کم سے کم 6 سے 7 فیصد تک لانا ہو گا۔

بہرحال امید پر دنیا قائم ہے ممکن ہے کہ شوکت ترین صاحب معاشی تجربہ کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک ہی حل کے ذریعے ملک کو معاشی بحران سے نکال کر بہت بڑی معاشی تبدیلی لائیں مگر ایک بات سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ شوکت ترین ایک پرائیویٹ بینک کے مالک بھی ہیں جو اس وقت شدید خسارے کا شکار ہے تو اس میں اب تک بہتری کیوں نہیں آئی؟ بہرحال اس وقت بھی ایسے محسوس ہورہا ہے کہ ملکی معیشت پر محض تجربہ کئے جارہے ہیں قلمدان کی تبدیلی کے ساتھ ہرنئے وزیر کی آمد کو تبدیلی کے ساتھ جوڑاجاتا ہے اور پھر چند ہی ماہ کے دوران ان سے قلمدان واپس لیکر پھر کسی اور کوسونپ دیاجاتا ہے۔

بہرحال تجرباتی بنیاد پر معیشت بہتر نہیںہوگی جب تک ایک واضح روڈ میپ معاشی حوالے سے سامنے رکھ کر اس پر مستقل بنیادوں پر عمل نہیں کیاجائے گا وگرنہ قلمدان تبدیل ہوتے رہینگے مدت پوری ہوتی رہے گی اور معیشت کی لاغری اپنی جگہ برقرار رہے گی ۔اب نظریں وزیرخزانہ شوکت ترین کی ترجیحات پر لگی ہوئی ہیں جس کا وہ ذکرکررہے ہیں کہ جلد ہی اپنی ترجیحات سے میڈیا کو آگاہ کرونگا ۔

ان ترجیحات میں کیا شامل ہوگا اور کونسی بہترین پالیسی لائینگے جس سے ملکی معیشت بہتر ہوجائے گی۔ بہرحال اچھی توقع اور امید کے ساتھ کہ اس بار حقیقی تبدیلی معاشی حوالے سے آئے گی جو محض قلمدان کی تبدیلی نہیں ہوگی۔