کوئٹہ: وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیرمین نصراللہ بلوچ نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ انکے چچا علی اصغر بنگلزئی کی جبری گمشدگی کو 20 سال مکمل ہورہے ہیں انہوں نے کہا کہ جب میں علی اصغر کی بیمار اور ضعیف سہارے کے ذریعے اٹھتی اور بیٹھتی اہلیہ کو دیکھتی ہوں یا پر علی اصغر کے بچوں کو جو اپنے والد کی طویل جبری گمشدگی کی وجہ سے بہت سے مشکلات سمیت نفسیاتی مریض بن چکے ہیں ۔
یا پر اپنے والد کے ساتھ بیٹھتا ہوں تو وہ اپنے بھائی علی اصغر کا ذکر کرتے ہوئے انکے آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں وہ کہتا ہے کہ کاش میں اپنے بھائی کو ایک بار دیکھ پاتا اسکے علاوہ انکا کہنا ہے کہ جب کوئی خوشی کا موقعہ پر ہمیں علی اصغر کا یاد آتا ہے تو وہ خوشی ماتم میں بدل جاتا ہے نصراللہ بلوچ نے کہا کہ یہ لحمے میری لیے اور میرے خاندان کے لیے شدید کرب و اذیت کے ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس لیے وہ دیگر لاپتہ افراد کے اہلخانہ کی کرب و اذیت سمیت دیگر مشکلات کو محسوس کرسکتا ہے ان کا کہنا ہے اس وجہ سے میں ریاست اور ریاستی اداروں سے پر زور اپیل کرتا ہوں کہ لاپتہ افراد کے مسئلے کو انسانی ہمدردی کے بنیاد پردیکھے اور اس بابرکت ماہ رمضان میں لاپتہ افراد کے مسئلے میں عفو ودر گزر کا رویہ اپنا کر میرے چچا سمیت دیگر کئی سالوں سے لاپتہ افراد کو غیر مشروط طور پر رہا کردے۔
یا انکے حوالے سے ہمیں معلومات فراہم کرکے غم زدہ خاندانوں کو زندگی بھر کی اذیت سے نجات دلائی جائے نصراللہ بلوچ نے اس امید کا اظہار کیا کہ ریاست اور ریاستی ادارے انکی اپیل پر ضرور سوچ و بچار کرینگے اور اس عید پر لاپتہ افراد کی بازیازبی کو یقینی بنا کر لاپتہ افراد کی اہلخانہ کی خوشیوں کو دو بالا کرینگے۔