|

وقتِ اشاعت :   April 22 – 2021

کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ میں گزشتہ روز آواران سے تعلق رکھنے والے بی ایس او کے سابق ضلعی صدر اور سماجی کارکن خالد قمبرانی کو بی این پی میں شمولیت اختیار کرنے پر خوش آمدید کرنے کیلئے پروگرام منعقد ہوا جس میں پارٹی کے مرکزی ہیومن رائٹس سیکرٹری موسی بلوچ، مرکزی کمیٹی کے ممبر غلام نبی مری، بی این پی آواران کے ضلعی انفارمیشن سیکرٹری اسد عطا حسنی، بی این پی کوئٹہ کے سابق سیکرٹری انفارمیشن اسد سفیر شاہوانی۔

سابق کسان و ماہیگیر سیکرٹری ملک ابراہیم شاہوانی، فیض اللہ بلوچ، جان محمد مینگل، ادریس پرکانی، میر زاعفران مینگل اور غضنفر محمد کھیتران نے خطاب کرتے ہوئے آواران سے نوجوان سماجی کارکن اور بی ایس او کے سابق ضلعی صدر خالد قمبرانی اور ان کے ساتھیوں کو بی این پی میں شمولیت اختیار کرنے پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے ان دوستوں کی اس فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ آواران جیسے پسماندہ اور حکومتی ناانصافیوں کے شکار علاقے سے سماجی نوجوانان جس انداز میں پارٹی میں جوک در جوک شمولیت اختیار کررہے ہیں۔

یہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ بلوچستان اور بلوچ عوام کو یہ بخوبی اندازہ ہے کہ بزرگ عظیم رہنما سردار عطا اللہ خان مینگل اور پارٹی کے قائد سردار اختر جان مینگل صحیح معنوں میں بلوچ قوم کے بنیادی حقوق سائل و وسائل کی دفاع کیلئے سیاسی و جمہوری انداز میں جدوجہد و قربانیاں دیتے ہوئے مکمل صوبائی خودمختاری، سائل وسائل کو اپنے دست راست میں لانے کیلئے قوم وطن دوستی کی فکر و خیال نظریہ و پرچار کو نہایت ہی مخلصی و ایمان داری مستقبل مزاجی سے آنے والے حالت و واقعات کا مقابلہ کرتے ہوئے بلوچ قوم کو شعوری، علمی انداز میں صف بند کرانے کیلئے اپنی جدوجہد کو فروغ دے رہے ہیں۔

یہ کوئی نہیں تحریک نہیں ہے بلکہ گزشتہ کہی دہائیوں سے قومی شناخت واک و اختیار قومی ریاست کی تشکیل تہذیب و تمدن بقا اور سلامتی کی جدوجہد کی قربانیوں پر مشتمل کہی دہائیوں پر مشتمل ہے۔ انہون نے کہا کہ جس تیزی سے آواران میں پارٹی کی مقبولیت عوامی پزیرائی اور تائید و حمایت کوئی نہیں بات نہیں ہے بلکہ بلوچ نیشنلزم قومی جدوجہد میں گڑ رہا ہے لیکن چند سالوں سے سوچھے سمجھے منصوبے کے تحت ضلع آواران اور بلوچستان کے دیگر اضلاع میں حالات خراب کرکے حقیقی سیاسی کارکنوں کو دیوار سے لگانے انتقامی کاروائی کا نشانہ بنا کر ظلم و جبر و ناانصافیوں کا بازار گرم کرکے عوام کے مسترد شدہ لوگوں کو جبرن عوام پر مسلط کیا گیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج ایک مرتبہ پھر اسٹیبلشمنٹ اپنے منظور نظر سلیکٹیڈ لوگوں کی ذریعے سے آواران میں بی این پی اور قوم وطن دوست حقیقی جمہوری کارکنوں کو آراسہ کرکے خوف و اعراس جھوٹے مقدمات غیر جمہوری و غیر منفی اتکنڈوں کے ذریعے سے قومی جمہوری سیاست کرنے پر قدغن لگانے اور جمہوری جدوجہد سے دستبردار کرانے کیلئے منفی اتکنڈوں میں مصروف عمل ہوکر علاقے میں اپنے خاتمے کو دیکھ رہے ہیں۔

بی این پی کسی بھی صورت میں اپنے رہنماوں اور کارکنوں کے خلاف انتقامی کاروائیوں پر خاموشی اختیار نہین کرینگے۔ اور نا ہمارے کارکن اتنے کا وارث و بے بس ہے کہ کوئی حکومتی مشینری کو برو کار لاتے ہوئے ہمارے دوستوں کو نقصان پہنچائے۔ اس موقع پر پارٹی کے مرکزی اہیومن رائٹس سیکرٹری موسی بلوچ نے خالد قمبرانی کو پارٹی کا تین رنگا کیپ اور مرکزی کمیٹی کے ممبر غلام نبی مری نے پارٹی کے تین رنگا جھنڈا پہنایا اور ملک ابراہیم شاہوانی نے پارٹی کی الیکشن منشور پیش کی۔