|

وقتِ اشاعت :   April 22 – 2021

گزشتہ چند روز سے ملک میں امن وامان کی صورتحال انتہائی خراب تھی اور اس کی وجہ کالعدم تنظیم کی جانب سے دھرناتھا اور اس جماعت کی جانب سے پہلی بار دھرنا نہیں دیاجارہا تھااور نہ ہی یہ مسئلہ پہلے والے دھرنوں سے الگ ہے۔ فیض آباد دھرنے سے لیکر اب تک اس تنظیم کامطالبہ وہی ہے جس پر باقاعدہ ن لیگ اور پھرموجودہ حکومت نے تحریری معاہدہ کیا تھا اس احتجاج اور معاہدے کے حوالے سے پہلے جو کچھ حکومتوں کی جانب سے کیا گیا اب اسی پر زیادہ سوالات اٹھائے جارہے ہیں ۔بہرحال ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھاناانتہائی ضروری ہے۔

کیونکہ اس کے مستقبل میں نتائج برعکس نکل سکتے ہیں مگر جس جلدبازی اور حالات کو وقتی طور پر کنٹرول کرنے کیلئے جو طریقہ اپنایاگیا وہ انتہائی غیرمناسب رہا ہے۔ 2017 میں اسی تنظیم نے فیض آباد اورراولپنڈی میں ایک دھرنا دیا تھا، اس وقت بھی پُرتشدد واقعات پیش آئے اور آخر میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اس تنظیم کے ساتھ ایک تحریری معاہدہ کیا اور اپنے وزیر قانون زاہد حامد کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا،پھر نومبر 2018 میں عمران خان کی حکومت بنی، سپریم کورٹ نے توہین رسالت کی ایک ملزمہ آسیہ بی بی کی رہائی کا حکم دیا۔

تو تحریک لبیک نے احتجاج کا اعلان کیا۔ ایک دفعہ پھر اس تنظیم سے مذاکرات ہوئے، معاہدہ ہوا اور پھر ٹوٹ گیا۔ تنظیم کے سربراہ خادم حسین رضوی کو گرفتار کیا گیا اور کچھ عرصہ بعد رہا کردیا گیا۔ اکتوبر 2020 میں ایک نیا تنازع کھڑا اٹھ ہوا۔ فرانس میں ایک اسکول ٹیچر نے اپنی کلاس میں نبی کریمﷺکے گستاخانہ خاکے دکھائے جس کے ردِعمل میں متعددمسلم ممالک میں احتجاج ہوا اور تحریک لبیک نے فرانس کے سفیر کو پاکستان سے نکالنے کا مطالبہ کردیا۔ تحریک لبیک نے ایک دھرنے کا اعلان کیا جس کے بعد اس وقت کے وزیر داخلہ اعجاز شاہ اور وزیر مذہبی امور نور الحق قادری نے تحریک لبیک سے مذاکرات کئے۔

اور ایک تحریری معاہدے میں وعدہ کیا کہ فرانس کے سفیر کو پاکستان سے نکال دیا جائے گا۔ کالعدم تنظیم کی جانب سے معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے زور دیاجاتارہا اور پھر ملک بھر میں دھرنا دینا شروع کردیا گیا ۔ اب اس معاملے کو سلجھانے کیلئے حکومت نے قومی اسمبلی میں فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے حوالے سے گزشتہ روزقرار داد پیش کی ۔پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کے اس اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ ن لیگ کے ارکان اسمبلی نے اجلاس میں شرکت کی۔اجلاس میں رکن اسمبلی امجد علی خان نے ناموس رسالت کی قرارداد ایوان میں پیش کی۔

قرار داد کے متن میں کہا گیا ہے کہ ایوان میں فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے کی قرارداد پر بحث کی جائے اور معاملہ عالمی سطح پر اٹھایا جائے۔قرارداد میں کہا گیا ہے کہ فرانس اور یورپ کو اس معاملے کی سنگینی سے آگاہ کیا جائے ، فرانسیسی صدر کی جانب سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی حوصلہ افزائی افسوس ناک ہے۔قرار داد میں یہ بھی لکھا ہے کہ یہ ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات کے معاملات ریاست کو طے کرنے چاہئیں ، کوئی فرد، گروہ یا جماعت اس حوالے سے بے جا غیر قانونی دباؤ نہیں ڈال سکتی۔

قرارداد میں کچھ اورمطالبات بھی شامل ہیں جبکہ ایوان نے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ سوال اپنی جگہ اب بھی برقرار ہے کہ آگے چل کر پوری پارلیمان اس حوالے سے مشترکہ طور پر کیا فیصلہ کرے گی کیونکہ موجودہ حکومت نے واضح کردیا ہے کہ وہ فرانسیسی سفیر کو نہیں نکالے گی اس سے ملک کا نقصان ہوگا اور یورپ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خراب ہونگے جس کا ملکی معیشت پر بھی اثر انتہائی منفی پڑے گا ۔ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ مسلم ممالک کے ساتھ مل کر مہم چلائینگے اور اسے خود لیڈکرینگے تاکہ آئندہ گستاخانہ خاکوں سمیت توہین رسالت جیسے سنگین معاملات سامنے نہ آئیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اس حوالے سے مشترکہ طور پرکیا روڈ میپ اپناتی ہیں جو سب کیلئے قابل قبول ہو اور ماحول ساز گار طریقے سے چل سکے یا پھر ایک نیا تنازعہ سراٹھائے گا ۔مگر ملک باربار پُرتشددماحول کا متحمل نہیں ہوسکتا اس لئے بجائے یہ کہ وقتی علاج کیا جائے ،اس مرض کے خاتمے کیلئے مستقل بنیادوں پر حل نکالا جائے تاکہ عوام کے جذبات کو بھی ٹھیس نہ پہنچے اور نہ ہی انہیں تشدداور احتجاج کے ذریعے اذیت کا سامنا کرناپڑے۔