|

وقتِ اشاعت :   April 23 – 2021

صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے زرغون روڈ سرینا چوک پر نجی ہوٹل کے پارکنگ میں دھماکے کے نتیجے میں 5 افراد جاںبحق جبکہ 12افراد زخمی ہوئے ۔پولیس کے مطابق کوئٹہ کے زرغون روڈ پر مقامی ہوٹل کے پارکنگ میں زورداردھماکا ہوا جس کی آواز دور دور تک سنی گئی۔دھماکے سے ہوٹل کے پارکنگ میں کھڑی متعدد گاڑیوں میں آگ لگ گئی،لاشوں اور زخمیوں کو سول اسپتال منتقل کیاگیا ،زخمیوں میں سے 2 کی حالت تشویشناک ہے۔جاں بحق افراد میں2 سیکیورٹی گارڈ اور ایک پولیس اہلکار بھی شامل ہے جبکہ دھماکے میں 2 اسسٹنٹ کمشنرز بھی زخمی ہوئے۔

دوسری جانب ترجمان پولیس نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہاہے کہ سی ٹی ڈی کے ابتدائی تحقیقات اور شواہد کے مطابق خودکش دھماکا ہو سکتاہے، دھماکہ خیزمواد گاڑی میں نصب کیا گیا تھا چونکہ دہشت گرد ہوٹل میں داخل نہیں ہوسکا، حملہ آور نے پارکنگ ایریا میں ہی دھماکہ کر دیا،بیان میں بتایاگیاہے کہ مکمل تحقیقات کے بعد ہی اصل حقائق سامنے آئیں گے۔واضح رہے کہ بدھ کی شب تراویح کے فوری بعد سرینا ہوٹل کے پارکنگ ایریا میں دھماکہ کیا گیا تھا۔ بہرحال سیکیورٹی اداروں کی جانب سے دھماکے کے مختلف پہلوؤں کاجائزہ لیاجارہا ہے۔

اور ابتدائی طور پر یہی بات سامنے آرہی ہے کہ دھماکہ خود کش تھا جبکہ اس دھماکے کی ذمہ داری کالعدم مذہبی تنظیم نے قبول کرلی ہے ۔ حکومت اور سیکیورٹی حکام کی جانب سے دہشت گردکا شہر کے اندر داخل ہونے اور ہوٹل میں دھماکہ کرنے کے حوالے سے تحقیقات جاری ہیں کیونکہ اس وقت چین کے سفیر اپنے وفد کے ہمراہ کوئٹہ میں ہیں اور ان کی رہائش بھی سریناہوٹل میں تھی ،شبہ یہ بھی کیاجارہا ہے کہ دھماکے کا ہدف سفیر اور ان کاوفد تھا جس وقت یہ دھماکہ ہوا چینی سفیر اور وفد کے دیگرممبران ہوٹل میں موجود نہیں تھے اور خوش قسمتی سے وہ بچ گئے۔

البتہ بلوچستان میں خود کش حملے اور بم دھماکے ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں اور دہشت گرد سرحد پارکرکے بلوچستان میں داخل ہوکر اپنے چند سہولت کاروں کے ہمراہ دہشت گردی کامنصوبہ بناتے ہیں اور پھر اس جگہ کو ہدف بناکر دہشت گردی کرتے ہیں ۔ اب تک بلوچستان میں جتنے بڑے سانحات ہوئے ہیں ان میں کالعدم مذہبی تنظیم ہی ملوث رہے ہیں اور وہ باقاعدہ اس کی ذمہ داری بھی قبول کرتے آئے ہیں ۔اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے سرحدوں پر باڑلگانے کافیصلہ کیا گیا اور سرحدی علاقوں میں سیکیورٹی بھی سخت کردی گئی تھی۔

مگر دوبارہ اس طرح کے واقعات کے رونما ہونے کے بعد اب مزید صوبائی حکومت اور سیکیورٹی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ کس طرح سے ان عناصر کو روکاجائے اور ان کے یہاں سہولت کاروں کیخلاف گرینڈآپریشن کرکے ان کا قلع قمع کیاجائے تاکہ بلوچستان کے نہتے اور معصوم شہری دہشت گردی کا نشانہ نہ بنیں،جس کیلئے ضروری ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کو مزید تیز کردیاجائے اور خاص کر شدت پسندوں کی ان کارروائیوں کے تدارک کیلئے سخت اقدامات اورفیصلے اٹھائے جائیں تاکہ صوبہ میں جو کئی برسوں بعد امن قائم ہوا ہے۔

دوبارہ بدامنی کاشکار نہ ہوجائے۔بہرحال اس بابرکت ماہ میںجس طرح سے دہشت گردی کی گئی ہے یہ عناصر انسانیت دشمن ہیں اور کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں ۔اس سے قبل بھی انہی دہشت گرد تنظیموں نے بلوچستان کے اہم شعبوں سے وابستہ اہم شخصیات اور پڑھے لکھے طبقہ کو نشانہ بنایا اور اس کے علاوہ مخصوص کمیونٹی کو ہدف بناکر دہشت گردی پھیلائی گئی جس کی ہمیشہ بلوچستان کے عوام نے مذمت کی ہے ۔لہٰذا حکومت اور سیکیورٹی ادارے ان دہشت گردوںکاقلع قمع کرنے کیلئے جنگی بنیادوں پر اقدامات اٹھائیں تاکہ بلوچستان میںدیرپاامن قائم ہوسکے۔