افغان طالبان نے ترکی امن کانفرنس میں شرکت طالبان قیدیوں کی رہائی سے مشروط کردی۔طالبان کاکہنا ہے کہ کانفرنس میں شرکت کے بدلے امریکا طالبان رہنماؤں پرعائد پابندیوں کے خاتمے کو یقینی بنائے۔واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ترکی میں 24اپریل کو ہونے والی افغان امن کانفرنس طالبان کی غیر حاضری کے باعث عید الفطر کے بعد تک ملتوی کردی گئی ہے۔ ترک وزیر خارجہ میولوت چاوش اولو کا کہنا ہے کہ کانفرنس کو طالبان کی شرکت یقینی نہ ہونے پر ملتوی کیا گیا کیونکہ طالبان کے بغیر کانفرنس کا کوئی مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔
ترک وزیرخارجہ کا مزید کہنا تھاکہ افغان امن کانفرنس عید الفطرتک ملتوی کردی گئی ہے، قطر، امریکا اور اقوام متحدہ سے مشاورت کے بعد افغان امن کانفرنس کو مئی کے وسط تک ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ طالبان کو کانفرنس میں شریک کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ ترکی کی میزبانی میں افغان امن کانفرنس دوسری بارملتوی ہوئی ہے، اس سے قبل 16 اپریل کوبلایا گیا اجلاس 24 اپریل تک ملتوی کیا گیا تھا۔دوسری جانب طالبان نے امریکی اور غیرملکی افواج کے افغانستان سے انخلاء سے قبل کسی بھی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کررکھا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امن، استحکام کیلئے ترکی کی کوششوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں، یقین ہے ترکی میں نئی تاریخوں کے بعد افغان قیادت کا اجلاس اہم ہوگا، امید ہے افغان فریق جامع سیاسی تصفیے پر کام کا موقع ضائع نہیں کریں گے۔ طالبان کی جانب سے جو مؤقف اپنایاگیا ہے کہ طالبان قیدیوں کی رہائی کے بعد ہی وہ کانفرنس کا حصہ بنیں گے اور یہ شرط دوحہ معاہدے کے اندر جنگ بندی کے دوران امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پا یاتھا اس کے ساتھ ہی امریکی فوج کا انخلاء بھی دوحہ معاہدے کا حصہ ہے۔
بہرحال خطے میں جس طرح کی صورتحال ہے اس حوالے سے مذاکرات انتہائی نا گزیر ہیں کیونکہ افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان زیادہ نقصان اٹھارہا ہے گزشتہ روز بلوچستان کے دارالخلافہ میں ایک ہوٹل میں ہونے والے دھماکے کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے قبول کی ہے اور اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس ڈیڈلاک کا فائدہ کچھ ایسے ممالک اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں جو پاکستان کو عدم استحکام کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔ دشمن ملک افغانستان میں رہ کر پاکستان کے امن کو تباہ کرنے پر تلا ہو اہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے یہاں بدامنی اور انتشار کے ذریعے انارکی کی صورتحال پیدا کی جائے۔
مگر یہ بات عالمی طاقتوں کو سوچنا چاہئے کہ جس طرح سے دہشت گردی کو ایک خاص ایجنڈے کے ذریعے چند ممالک بھڑکانے کی کوشش کررہے ہیں اس سے پوری دنیا کے امن کو خطرات لاحق ہونگے اس لئے ضروری ہے کہ دوحہ معاہدے میں طے پانے والے نکات پر عمل کیا جائے تاکہ امن کے حوالے سے بات چیت کا تسلسل جاری رہے اور اس کیلئے دونوں فریقین کو سنجیدگی کے ساتھ سوچنا چاہئے کیونکہ جنگ کسی کے مفاد میں نہیں ہے ۔ افغانستان میں امن کا مقصد نہ صرف ایشیاء بلکہ پوری دنیا کیلئے نیک شگون ثابت ہوگا۔
اگر اسی طرح سے معاملات ڈیڈلاک کا شکار رہے تو صورتحال گھمبیر ہوجائے گی اور اب جو امن کسی حد قائم ہوا ہے ایک بارپھر دہشت اور بدامنی کی طرف چلاجائے گا۔ امید ہے کہ طالبان بھی لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغانستان کے دیرپاامن کے حوالے سے بات چیت کے دروازے بند نہیں کریںگے اور یہی توقع امریکہ اور عالمی طاقتوں سے ہے کہ سب مشترکہ طور پر افغان امن عمل کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے بھرپور طریقے سے اپناکردار ادا کرینگے۔