|

وقتِ اشاعت :   April 29 – 2021

گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان سے جہانگیر ترین ہم خیال گروپ نے ملاقات کی ,جو وقت وزیراعظم سے مانگاجارہا تھا بلآخر وزیراعظم نے ملاقات کیلئے وقت دیا اور ان کی باتیںبھی سنیں۔ اس ملاقات کے بعد یہ تاثر ضرورگیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان جہانگیر ترین کے حامی ارکان کے دباؤ میں آئے ہیں اور اس لئے ان سے ملاقات کی کیونکہ ایک بات یہاں واضح ہوتی ہے کہ وزیراعظم اول روز سے یہ بات کہتے آرہے ہیںکہ وہ کسی کے دباؤ اور بلیک میلنگ میں نہیں آئینگے میرامقصد اس ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہے اور شفاف طریقے کی حکمرانی ہے۔

یاد رہے کوئٹہ میںبولان مچھ کے علاقے میں ایک سانحہ رونما ہوا تھاجس میں ہزارہ کمیونٹی نے طویل دھرنا دے رکھا تھا اور ان کا صرف ایک ہی مطالبہ تھا کہ وزیراعظم یہاںخود تشریف لائیںاور لواحقین سے ملاقات کرکے انہیں تسلی دیںکہ جو دہشت گرد ملوث ہیں ان کیخلاف بلاتفریق کارروائی کی جائیگی اور آئندہ اس طرح کے دہشتگردانہ واقعات کی روک تھام کیلئے سخت اقدامات اٹھائے جائیں مگر وزیراعظم نے دوٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہاکہ اگر میںملاقات کرنے گیا تو ہر کوئی کل مجھے بلیک میل کرے گا اور ایک غلط روایت قائم ہوگی جس کا میں حامی نہیں ہوں لہٰذا میتوں کی تدفین کے بعد ہی میں ورثاء سے ملاقات کرونگا اور یہی ہوا دھرنا ختم کیا گیا پھر وزیراعظم عمران خان کوئٹہ تشریف لائے اور ان سے ملاقات کی۔

اس پس منظر کو یہاںبیان کرنے کابنیادی مقصد یہ ہے کہ جہانگیر ترین کیخلاف کیس چل رہا ہے اور فیصلہ نہیں آیا ہے اس سے قبل جہانگیر ترین کے حامی ایم این ایز اور ایم پی ایز سے کیونکر ملاقات کی گئی پھر یقینا اسے دباؤ اور بلیک میلنگ کے ذمرے میں ہی دیکھاجائے گا کیونکہ حالیہ ہونے والی ملاقات اور انکوائری آفیسرکی تبدیلی نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے ۔اور اپوزیشن کی جانب سے بھی یہی باتیں کی جارہی ہیں کہ وزیراعظم عمران خان نے دباؤ میں آکر ملاقات کی اور وہ خود این آراو لے رہے ہیں۔

دوسری جانب جہانگیر ترین ہم خیال گروپ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ہماری 75فیصد باتیں وزیراعظم نے مان لی ہیں ،یہ بات رکن قومی اسمبلی راجا ریاض نے ملاقات کے بعد میڈیاکے ساتھ کی ہے جس کی باقاعدہ تردید نہیں آئی ہے ۔البتہ یہ بات سامنے آئی ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ملاقات کے دوران ہم خیال گروپ سے تحقیقاتی کمیشن بنانے کی استدعا کومستردکرتے ہوئے کہا کہ مجھ سے امید رکھیں ہر صورت انصاف ہوگا۔ وزیر اعظم نے شوگر کمیشن پر جاری تحقیقات پر کسی قسم کا دباؤ قبول کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ میرا حکومت میں آنے کا مقصد نظام انصاف قائم کرنا ہے۔

جہانگیر ترین سمیت کوئی ذمہ دار نکلا تو قانون کے مطابق کارروائی کا سامنا کرنا ہوگا۔بہرحال کسی حد تک تو جہانگیر ترین اس حوالے سے کامیاب ہوچکے ہیں ۔
کیونکہ ان کے حامی ارکان سے وزیراعظم نے ملاقات کرلی اور انہوں نے ملاقات میں اپنے لئے تو کچھ نہیں مانگا ہے جہانگیر ترین کیلئے ہی ریلیف کی گزارش کی ہوگی اب جہانگیر ترین اور اس کے بیٹے پر چلنے والا کیس کیا موڑ اختیار کرے گا ۔

یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا ۔مگر موجودہ ملاقات نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے بیشک پی ٹی آئی کی جانب سے یہ بات کہی جائے کہ وزیراعظم کا اپنے ارکان سے ملاقات اور ان کے تحفظات کو سننا جمہوری حق ہے تو اب کیا وزیراعظم کسی بھی جماعت جس کو تفتیش اور کیس کے حوالے سے شکوہ ہوگا انہیںیہ جمہوری حق فراہم کرے گا۔ وزیراعظم تک اب سب کی رسائی ہوگی اور اپنے تحفظات سامنے رکھ سکے گا ،ایسا ممکن ہی نہیں ہے ۔ دوسری اہم بات شاہ محمود قریشی نے جس طرح سے جہانگیر ترین ہم خیال گروپ کو آدھا تیتر اور آدھا بٹیر کہا تھا۔

تو اس پر بھی ہم خیال گروپ نے جہانگیر ترین اور اپنے دفاع میں جواب بھرپور انداز میں دیا ہے کہ شاہ محمود قریشی صاحب اکیلے ہیں اور جہانگیر ترین نے ہی ہم سب آزاد امیدواروں کو پی ٹی آئی میںشامل کرکے حکومت بنائی ہے۔ اس لئے وہ اس طرح کی باتیں کرنے سے اجتناب کریں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ معاملہ کہاںجاکر رکے گا اور جہانگیر ترین کو ریلیف مل گیا تو یقینااحتساب اور شفاف نظام کے حوالے سے وزیراعظم کے مؤقف پر بہت سارے سوالات اٹھیں گے ۔