سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کے انکشافات نے ایک ہلچل مچادی ہے، بشیر میمن کے مطابق انہیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف انکوائری کیلئے شہزاد اکبر نے کہا تھااور فروغ نسیم نے ان کی حمایت کی تھی۔بشیر میمن نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے ان سے کہا کہ ہمت کریں، آپ کرسکتے ہیں۔تاہم بشیر میمن کا کہنا ہے کہ میں نے بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ ایف آئی اے کے ضابطہ کار میں ایسے نہیں کیا جاسکتا، یہ کام سپریم جوڈیشل کونسل کا ہے۔بشیر میمن کا مزید انکشافات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مجھ پر نوازشریف، شہبازشریف، مریم نواز، حمزہ شہباز، شاہد خاقان، رانا ثنا، مریم اورنگزیب، خواجہ آصف، خورشید شاہ، مصطفیٰ نوازکھوکھر، اسفند یار ولی اور امیر مقام کو گرفتار کرنے کیلئے دباؤ ڈالا جاتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ جب اعتراض اٹھایا کہ گرفتاری کیلئے ثبوت ہونے چاہئیں تو کہا گیا کہ فی الحال پکڑ لو بعد میں دیکھیں گے، ریمانڈ لیں گے، پھر عدالت میں اس کو ثابت کریں گے۔بشیر میمن نے کہا کہ خود وزیر اعظم نے انہیں کہا کہ سعودی شہزادہ محمد بن سلمان تو جو کہتا ہے وہ ہوجاتا ہے، آپ اعتراضات کرتے ہیں جس پر انہیں جواب دیا تھا کہ سعودی عرب میں بادشاہت ہے، پاکستان میں جمہوریت ہے ، صرف گرفتار کرنا نہیں جرم بھی ثابت کرنا ہوتا ہے۔ دوسری جانب وزیراعظم کے مشیر برائے داخلہ و احتساب شہزاد اکبر نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے سابق ڈی جی بشیر میمن سے معافی مانگنے کا مطالبہ کردیا اور 50 کروڑ روپے ہرجانے کا قانونی نوٹس بھجوا دیا۔نوٹس میں کہا گیا ہے
کہ 14 دن میں الزامات واپس لے کر غیر مشروط معافی مانگیں۔شہزاداکبر کاکہناہے کہ بشیر میمن نے بدنیتی پر مبنی الزامات لگائے،جھوٹے الزامات پر وہ عدالت کے سامنے جوابدہ ہوں گے۔ مشیرداخلہ و احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ ایف آئی اے کی کوئی ٹیم میری زیرنگرانی کام نہیں کرتی تھی نہ کررہی ہے،شہزاد اکبر نے کہا کہ بشیرمیمن کی باتیں جھوٹ پر مبنی ہیں، بشیرمیمن کو قاضی فائزکے معاملے پروزیراعظم یا مجھ سے ملاقات کیلئے کبھی نہیں بلایا گیا، بشیرمیمن اور وزیر قانون کے درمیان بھی کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کامعاملہ عدالت میں چل رہا ہے اور اس پر مفصل بحث میڈیامیں ہوچکی ہے مگر بشیر میمن نے جو حالیہ باتیں کی ہیں وہ انتہائی غیرمعمولی ہیں کیونکہ اس میںبراہ راست موجودہ حکومت کااداروں کو سیاسی شخصیات کیخلاف کیسز بنانے اور انہیں گرفتار کرنے کے الزامات ہیں اور اس کا اظہار اپوزیشن جماعتیں متعددبار کرچکی ہیں ۔
اب اصل معاملہ ہے کیا اس کے تمام حقائق کو سامنے لانے کیلئے ضروری ہے کہ حکومت عدالت سے رجوع کرے اور اس حوالے سے شواہد مانگے محض معافی کی طلبی کافی نہیں ہوگی تاکہ اصل حقائق سب کے سامنے آسکیں وگرنہ جو باتیں اپوزیشن جماعتیں کہہ رہی ہیںانہیں تقویت ملے گی اور اس پر باور بھی کیاجائے گا کہ موجودہ حکومت اپنے مخالفین کو کسی نہ کسی طریقے سے دباؤ میں لانے کیلئے جھوٹے کیسز میں پھنسا کر ان کیخلاف انتقامی کارروائی کررہی ہے ۔اگر اس معاملے پر سرد مہری حکومت کی جانب سے اختیارکی گئی تو بہت سے شکوک وشہبات جنم لینگے کہ ہمارے ہاں جس طرح اداروں کو اپنے مخالفین کیخلاف ہر دور میںاستعمال کیاگیا وہ اب بھی برقرار ہے جس کی وجہ سے ادارے آزاد ہوکر اپنا کام نہیں کرتے اور انہیں کام کرنے کے حوالے سے دباؤ میں رکھاجاتا ہے۔ اگر یہی رویہ اداروں کے آفیسران کے ساتھ رہا تو کس طرح سے ملک میں سیاسی استحکام کی امید کی جاسکتی ہے انہی سیاسی رویوں کی وجہ سے پارلیمانی نظام انتہائی کمزور ہوکر رہ گیا ہے اور ادارے دباؤمیں رہ کر اپنا کام ٹھیک سے نہیں کرپاتے۔