|

وقتِ اشاعت :   May 3 – 2021

پاکستان تحریک انصاف اول روز سے اپنے اتحادی حکومت کے ساتھ خوش دکھائی نہیں دے رہی خاص کر وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے ساتھ پی ٹی آئی بلوچستان کے تعلقات خاص بہتر نہیں ہیں ،وقتاََفوقتاََ بیانات کے ذریعے میڈیا کے سامنے یہ باتیں آتی رہی ہیں جس طرح گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اور پی ٹی آئی بلوچستان کے صوبائی صدر اور پارلیمانی لیڈر سردار یارمحمد رند کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ خیال ہوا۔ سردار یارمحمد رند نے اسمبلی فلور پر کھڑے ہوکر یہ بات کہی کہ وہ وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی محض نوٹیفکیشن کی حد تک ہیں جبکہ وزیراعلیٰ بلوچستان نے بھی نالائقوں کاٹولہ رکھا ہوا ہے۔

جس کی وجہ سے بلوچستان میں مسائل حل ہی نہیں ہوتے ۔جس کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان نے ردعمل دیتے ہوئے کہاکہ یہ باتیں پہلے بھی سردار یارمحمد رند کہہ چکے ہیں اور یہ ان کی پارٹی کا اندرونی معاملہ ہے اگر وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوجاتے ہیں تو انہیں کوئی نہیں روک سکتا ۔اس بیان کے بعد سردار یارمحمد رند نے سخت رد عمل دیتے ہوئے کہاکہ استعفیٰ دینے کامشورہ بی اے پی کی جماعت کے چیف آرگنائزر جان محمد جمالی کا تھا اور میرے لئے بلوچستان کی تکلیفیں زیادہ اہمیت رکھتی ہیں معاون خصوصی کا عہدہ نہیں ۔وزیراعلیٰ بلوچستان کو مخاطب کرتے ہوئے سردار یارمحمد رند نے کہاکہ میرا استعفیٰ کسی کی خواہش ہوسکتی ہے میرافیصلہ نہیں ۔

بات یہاں ختم نہیںہوتی وزیراعلیٰ بلوچستان کے بیان کے بعد پی ٹی آئی بلوچستان کے اجلاس میں مشترکہ طور پر یہ فیصلہ کیاگیا کہ وزیراعلیٰ ہاؤس کے کسی سرگرمی میں پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی شرکت نہیں کرینگے اور اس بات کا بھی اظہار کیاگیا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کا حالیہ بیان حکومت کیلئے آگے چل کر مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے ایک روزہ کوئٹہ کے دورہ سے قبل ہی وزیراعلیٰ ہاؤس نہ جانے کافیصلہ کیا جاتا ہے اور جب وزیراعظم عمران خان کوئٹہ تشریف لائے تو انہوں نے اپنے پارٹی اراکین سے ملاقات کی، صوبائی قیادت نے اپنی ناراضگی کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کو آگاہ کیا۔

کتنی دلچسپ بات ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے دورہ کے فوری بعد گورنر بلوچستان کی تبدیلی کی خبر آجاتی ہے، مصدقہ اطلاعات کے مطابق یہ مطالبہ پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت نے وزیراعظم پاکستان سے کیا تھا کہ گورنر بلوچستان پی ٹی آئی کے ایک سینئر رہنماء کو بنایاجائے۔ گورنر بلوچستان اب پی ٹی آئی کاہو گامگر بات یہیں پر ختم ہوگی نہیں ،بلکہ اب مزید کچھ آگے ہونے جارہا ہے جس کا اظہار پی ٹی آئی کے اہم رہنماء کرچکے ہیں کہ وزیراعلیٰ بلوچستان بجٹ سے پہلے ہی فارغ ہوجائینگے جبکہ یہ دعویٰ پہلے بھی پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت کرچکی ہے۔

کہ جب بلوچستان میں حکومت سازی کا معاملہ آیا تو انہیں 35ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل تھی مگر مرکزی قیادت کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی نے حکومت سازی اور وزیراعلیٰ کی دوڑ سے خود کو باہررکھااور اس میںخاص ذمہ دار جہانگیر ترین کو ہی قرار دیا کہ وہ بلوچستان میں پی ٹی آئی کے معاملات میںبراہ راست مداخلت کررہے تھے مگر اب جہانگیرترین کو کافی عرصے سے پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت نے سائیڈلائن کردیا ہے اور ان پر باقاعدہ کیسز چل رہے ہیں۔ اب کیا مرکز میں پی ٹی آئی بلوچستان کی قیادت کو گرین سگنل اور ان کے مطالبات کی حمایت کرنے والی ایک مضبوط لابی موجود ہے ۔

جو بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے انہیں مکمل سپورٹ کرے گی اگر ایسا ہوا تو یقینا ایک بہت بڑا سیاسی بھونچال پیدا ہوگا ۔ بہرحال اب یہ بجٹ سے قبل سیاسی تبدیلیوں کے بعد ہی واضح ہوجائے گا کہ معاملات الجھ رہے ہیں یا انہیں سلجھادیاجائے گا اور جام کمال خان اپنی مدت پوری کرینگے اور پی ٹی آئی اس تمام عمل کے دوران اور بھی بہت سارے مطالبات منوائے گی جس طرح گورنر بلوچستان کی تبدیلی میں انہیں کامیابی ملی۔ بقول پی ٹی آئی ارکان کہ ہماری پارٹی کو ایک کامیابی تو ملی اب ہمارے ورکرز کوایک بڑے سرکاری آفس تک باآسانی رسائی مل جائے گی ۔

اب دوسرے بڑے ہدف کو حاصل کرنے کیلئے کیا حکمت عملی اپنائی جائے گی ، یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا مگر ماضی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ بلوچستان کی اپوزیشن جماعتیں جومرکز کے سخت خلاف رویہ رکھتے تھے مگر سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کے دوران تمام اپوزیشن نے فوراََ اپنا ووٹ موجودہ اسپیکر میرعبدالقدوس بزنجو کو 2018ء کے دوران دیا اور وہ اکثریت لیکر وزیراعلیٰ بلوچستان کے منصب تک پہنچے ۔اس لئے بلوچستان میں سیاسی تبدیلی کبھی بھی کسی بھی وقت رونما ہوسکتی ہے جوماضی کی سیاسی تبدیلیوں اورحکومت گرانے سے ثابت ہوتی ہیں۔