کوئٹہ: وزیراعلیٰ کی تبدیلی یا پھر ایک اور اہم وزیر کا قلمدان واپس لئے جانے کا امکان ، بلوچستان میں بجٹ سے قبل بڑی سیاسی تبدیلی رونما ہوسکتی ہے۔ بلوچستان کی مخلوط حکومت میںشامل دو بڑی اتحادی جماعتوں کے درمیان دوریاں دن بہ دن بڑھتی جارہی ہیں، وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے چند روز قبل اپنے بیان میں کہاتھا کہ سردار یارمحمد رند اگراپنے عہدے سے مستعفیٰ ہوجاتے ہیں۔
تو اسے نہیں روکاجاسکتا جس پر سرداریارمحمد رند نے اپنے ردعمل میں کہناتھا کہ میرااستعفیٰ کسی کی خواہش تو ہوسکتی ہے میرافیصلہ نہیںاور مجھے مستعفی ہونے کا مشورہ بلوچستان عوامی پارٹی کے چیف آرگنائزر جان محمدجمالی نے دیا تھا ۔ پی ٹی آئی کے ایک ذمہ دار کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی کوئٹہ آمد کے دوران گورنر بلوچستان کی تبدیلی کے ہمارے مطالبہ کو تسلیم کیاگیا ہے جس سے ہماری جماعت کو کوئٹہ میں ایک بڑاسرکاری آفس مل جائے گا جبکہ ہمارے کارکنان کی رسائی آسان ہوگی جبکہ وزیراعلیٰ ہاؤس کے دروازے پی ٹی آئی کیلئے مکمل طور پر بندکردیئے گئے ہیں ۔
اور انہیں دیوار سے لگایاجارہا ہے جبکہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان صوبہ کے اہم فیصلوں پر پی ٹی آئی کومسلسل نظرانداز کررہی ہے اور عددی اکثریت ہونے کے باوجود ہمیں اقلیتی حیثیت میں کابینہ میں رکھا گیا ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ ہاؤس میں ایک اہم اجلاس کے دوران ایک سینئر وزیرسے قلمدان واپس لینے کے حوالے سے سوچ وبچار کیاجارہا ہے جس کا نوٹیفکیشن کسی بھی وقت جاری کیا جاسکتا ہے اور اس کا اشارہ سردار یارمحمد رند کی طرف ہے جن کے پاس محکمہ تعلیم کی وزارت موجود ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے اہم ذمہ دار کا کہنا ہے کہ ہمیں 35ارکان کی حمایت حاصل تھی مگر مرکزی قیادت کے فیصلے کی وجہ سے ہم نے بلوچستان عوامی پارٹی کو حکومت سازی اور وزارت اعلیٰ کے منصب کاموقع فراہم کیا اگر مرکزی قیادت اپنا فیصلہ مسلط نہ کرتی تو ہم اپنی حکومت بناتے اس سے واضح ہوجاتا ہے۔
کہ 2018ء کے عام انتخابات کے بعد حکومت سازی کے دوران سے ہی اندرون خانہ یہ جنگ چلتا آرہا ہے جو اب برائے راست بیانات کے ذریعے سامنے آرہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کی جانب سے بجٹ میںاہم منصوبے پی ایس ڈی پی میںشامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے اگر انہیںنظرانداز کیاگیا تو بجٹ سے پہلے پی ٹی آئی وزیراعلیٰ بلوچستان کی تبدیلی کیلئے دوبارہ سرگرم ہوجائے گی جبکہ پی ٹی آئی ذرائع کی جانب سے یہ دعویٰ بھی کیاجارہا ہے کہ حکومت میںشامل اتحادی جماعتوںکے ارکان سمیت اپوزیشن کے ارکان کی حمایت بھی ان کو حاصل ہے ۔
دوسری جانب گورنر بلوچستان کی تبدیلی کے فیصلے کے بعد اب وزیراعلیٰ بلوچستان اور سردار یارمحمد رند کی جانب سے ایک دوسرے پر برائے راست بیان بازی نہیں کی جارہی بلکہ اپنے ترجمانوں کے ذریعے بیانات جاری کئے جارہے ہیں گزشتہ روز وزیراعلیٰ ہاؤس سے ایک بیان میںکہاگیا کہ باپ کے ارکان نے اجلاس کے دوران سرداریارمحمد رند کے حوالے سے وزیراعلیٰ بلوچستان کے سامنے اپنی شکایات رکھی جس میں کہاگیاکہ محکمہ تعلیم میں غیرضروری مداخلت سمیت سیاسی بنیاد پر تبدیلیاں کی جارہی ہیں جبکہ سول سیکریٹریٹ میں مسلح محافظوں کی موجودگی کی وجہ سے بے چینی کاماحول پیدا ہوا ہے ارکان کا کہنا ہے کہ یہ رویہ قابل قبول نہیں یقینا مسلح محافظ سردار یارمحمد رند کے ہی ہیں جس میںبرائے راست ان کا نام نہیں لیاگیا مگر بیان کے متن سے یہ بات صاف واضح ہے۔
چونکہ بیان سردار یارمحمد رند کی شکایات پر جاری کیاگیا تھا، وزیراعلیٰ ہاؤس سے جاری بیان میں کہاگیا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی وفاق میں اتحادی ہے اور یہ اتحاد شراکت داری کی حیثیت سے سینیٹ اور قومی اسمبلی میں ہے اس جملے سے باپ کی جانب سے واضح پیغام پی ٹی آئی کی صوبائی ومرکزی قیادت کو دیاجارہا ہے کہ اگر صوبائی حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تو وفاق میں بلوچستان عوامی پارٹی بہت کچھ کرسکتی ہے تاکہ پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت ایک بار پھر صوبائی قیادت کوخاموشی اختیار کرنے کا مشورہ دے ، وزیراعلیٰ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان کے بعد پی ٹی آئی کے صوبائی ترجمان نے شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ سردار یارمحمد رند کیخلاف من گھڑت بے بنیاد جھوٹ الزامات کومسترد کرتے ہیں جبکہ جلد ہی دستاویزی ثبوت سمیت تفصیلی مؤقف جاری کیاجائے گا اہم دستاویزات میں ضرورکچھ اہم چیزیں شامل ہونگی جو وزیراعلیٰ بلوچستان کے متعلق ہونگی اس لئے۔
بیان میں دستاویزات کا ذکر کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان تحفظات اور کشیدگی کو کم کرنے کیلئے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وفاقی وزیر اسد عمر کو ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیںمگر اس کے باوجود بھی اسد عمر کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے دونوں جماعتوں کی جانب سے بیانات دینے کا سلسلہ جاری ہے اگرموجودہ سیاسی کشیدگی کی صورتحال کاجائزہ لیاجائے تو یہ معاملہ آگے چلکر مزید شدت اختیار کرے گا اور اس کا برائے راست اثر حکومت پر لازمی پڑے گا اور اپوزیشن اس طاق میں ہے کہ مزید معاملات الجھتا جائے تاکہ اس موقع کا فائدہ اٹھاسکیں کیونکہ بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کا مرکزمیں الگ جبکہ بلوچستان میں الگ پالیسی ہے ۔
جن جماعتوں نے مسلم لیگ ن کے وزیراعلیٰ کو ہٹانے کیلئے عدم اعتماد کی تحریک میں حصہ لیتے ہوئے ق لیگ کے رکن کو وزیراعلیٰ بنایا تو وہ باپ کے وزیراعلیٰ کیخلاف جاتے ہوئے پی ٹی آئی کی حمایت بھی کرسکتے ہیں یعنی بلوچستان کی سیاست میں بہت بڑی تبدیلی قدرتی آفات کی طرح ہے جو کبھی بھی کسی بھی وقت آسکتا ہے۔