گزشتہ چند روز سے بلوچستان کی سیاست کا درجہ حرارت بڑھتاجارہا ہے ،اطلاعات کے مطابق بلوچستان عوامی پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان پیدا ہونے والی اختلافات کے بعد اب بلوچستان عوامی پارٹی کے اپنے ارکان بھی وزیراعلیٰ بلوچستان سے نالاں نظر آتے ہیں۔بلوچستان عوامی پارٹی کے سینئر رہنماء سردار صالح محمدبھوتانی سے وزیراعلیٰ بلوچستان نے قلمدان واپس لیکر اپنے پاس رکھ لیا ہے جبکہ اس حوالے سے سردار صالح محمدبھوتانی نے اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ مجھے اعتماد میں لئے بغیر میرا قلمدان مجھ سے واپس لیاگیا ہے، سینئر ارکان کے ساتھ رابطہ میں ہوں اور بہت جلد آئندہ کے لائحہ کا اعلان کرونگا ۔
اسپیکر میرعبدالقدوس بزنجو اور صوبائی وزیر خزانہ میرظہور بلیدی نے گزشتہ روز سردار صالح محمد بھوتانی سے ملاقات کی جس کے فوری بعد یہ خبر سامنے آئی کہ وزیرخزانہ میرظہور بلیدی نے حکومت کی طرف سے الاٹ شدہ گھر چھوڑنے کافیصلہ کرتے ہوئے اسپیکر کو ایم پی اے ہاسٹل میں فلیٹ الاٹ کرنے کی درخواست کی تھی جس پر اسپیکر نے انہیں فلیٹ الاٹ کردیا ہے ۔بہرحال یہ معاملہ صرف گھر یا فلیٹ واپس کرنے اور لینے کا نہیں اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ میرظہور بلیدی اپنی ناراضگی کا اظہار کرر ہے ہیں
جبکہ سردار صالح بھوتانی سے ہونے والی ملاقات کی خبر نشر ہوناپیغام ہے کہ ان کا جھکاؤ کس طرف ہے حالانکہ ان حالات میںوزیراعلیٰ بلوچستان کی مکمل کابینہ کو ان کے ساتھ ہونا چاہئے تھا مگر ایسے محسوس ہورہا ہے کہ کابینہ ارکان ان سے خفا ہیں اور اس کی بنیادی وجہ فی الحال وہ سامنے نہیں لارہے۔ قیاس آرائیاں بہت سی ہورہی ہیں ہونا تو یہ چاہئے کہ جن کو اپنے وزیراعلیٰ سے اختلاف ہے تو ذاتی طور پر اپنے تحفظات کا اظہار ان سے کریں ۔گمان یہ کیاجارہاہے کہ شاید وزیراعلیٰ بلوچستان انہیں زیادہ ترجیح نہیں دے رہے جس طرح پہلے فرنٹ لائن پر کابینہ سمیت دیگر اراکین وزیراعلیٰ کے ساتھ دکھائی دے رہے تھے۔
جب سے وزیراعلیٰ بلوچستان اور سردار یارمحمد رند کے درمیان صورتحال کشیدہ ہوئی ہے اب وزیراعلیٰ بلوچستان کی طرف سے ایک دو بیانات کے بعد ترجمان کی جانب سے بیانات جاری کیے جارہے ہیں جبکہ یہ بھی نہیں ہوا کہ کسی وزیر یا اتحادی نے اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے وزیراعلیٰ کا دفاع کیا ہو۔ بہرحال سوالات تو بہت سارے پیدا ہورہے ہیں مگر ان کا جواب فی الحال مصدقہ طور پر کوئی نہیں دے رہا کہ آیا حالیہ اتحادی اور باپ ارکان کے ساتھ ناراضگی کی وجہ بجٹ کا معاملہ ہے یا پھر کچھ اور ۔ اطلاعات یہ بھی ہیں
کہ پی ٹی آئی اور باپ کے اراکین کا گلہ یہ ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کے ارد گرد ایسے لوگ موجود ہیں جوانہیں مس گائیڈ کررہے ہیں جبکہ وہ کابینہ اور اپنے ارکان سے مشاورت نہیں کرتے اور ساتھ ہی یہ باتیں بھی کی جارہی ہیں کہ غیر منتخب نمائندگان میں فنڈز تقسیم کئے جارہے ہیں جس کی وجہ سے بلوچستان عوامی پارٹی کے اندر اختلافات پیدا ہورہے ہیں۔ البتہ وزیراعلیٰ بلوچستان کو موجودہ حالات کی حساسیت کوبھاپنتے ہوئے نہ صرف اپنی جماعت کے ارکان کے ساتھ سازگارماحول پیدا کرتے ہوئے بات چیت کرنا چاہئے بلکہ اپنے اتحادی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ بھی روابط کو بحال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معاملات زیادہ گھمبیر شکل اختیار نہ کرلیں اور یہ کسی کے مفاد میں نہیںہوگا کیونکہ غیر منتخب نمائندگان وقتی طور پر اپنے مفادات حاصل کرکے پھر کسی اور پارٹی کے چھتری تلے جمع ہوجائینگے ،لہذا اپنی جماعت کے سینئر سیاستدانوں کے ساتھ اچھے تعلقات کے ذریعے حکومتی معاملات کو آگے بڑھائیں تاکہ مستقبل میںمزید مشکلات پیدا نہ ہوں۔