وفاقی حکومت کی جانب سے عید الفطر پر 10 سے 15 مئی تک کی طویل چھٹیاں دی گئیں ہیں اور زیادہ چھٹیاں دینے کا مقصد لوگوں کی نقل و حرکت کو محدود رکھنا بتایا گیا ہے۔ساتھ ہی عید کی تعطیلات کے دوران ملک بھر میں کاروباری سرگرمیاں اور تفریحی مقامات بھی بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ وقت گھروں میں گزاریں۔وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کی زیر صدارت نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر اجلاس میں کورونا ایس اوپیز پر عملدرآمد کا جائزہ لینے کیلئے مانیٹرنگ ٹیم تشکیل دینے کافیصلہ کیا گیا۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ وفاقی،صوبائی اور ضلعی سطح پر ایس اوپیزپرعملدرآمد کیلئے مانیٹرنگ ٹیم تشکیل دی جائے، مانیٹرنگ ٹیمیں 8 مئی سے16مئی کے دوران ایس او پیز پرعملدرآمد یقینی بنائیں گی۔
اعلامیہ کے مطابق 8 مئی سے 16 مئی کے دوران تمام کاروبار اور دکانیں بند رہیں گی، البتہ فوڈ آؤٹ لیٹس،میڈیکل اسٹورز، پیٹرول پمپس اور بیکری کو استثنیٰ حاصل ہوگا۔این سی او سی کے مطابق 8 سے 16 مئی تک سیاحت کی سرگرمی پر مکمل پابندی ہوگی، سیاحتی مقامات، پارکس، شاپنگ مالز، ہوٹلز اور ریسٹورنٹس بند رہیں گے، شمالی علاقہ جات کے سیاحتی مقامات، پکنک مقامات بند رہیں گے، سمندر کے کنارے سیاحتی مقامات پر بھی پابندی ہوگی۔این سی او سی کے مطابق گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے شہریوں کو اپنے علاقوں میں واپس جانے کی اجازت ہوگی۔وفاقی حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے والے فیصلوں کابنیادی مقصد کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا ہے لیکن کیا ان اقدامات سے کورونا پر قابوپایاجاسکتا ہے جس طرح سے پابندیوں کے تلوار تجارتی مراکز پر لٹکائے جارہے ہیں کاروباری حضرات تومشکلات کا شکار ہونگے مگر دوسری جانب شہریوں پر بھی ذہنی دباؤ بڑھتاجارہا ہے اور اس دوران دیکھنے کو مل رہا ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد ان پابندیوں کے پیش نظر مارکیٹوں کا رخ کررہی ہے اور ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں صورتحال بالکل ہی مختلف دکھائی دے رہی ہے،عوام کا ہجوم امنڈ پڑا ہے کہ کل کوئی دوسری پابندی نہ لگائی جائے اس لئے ابھی سے خریداری کی جائے اس طرح کے اقدامات کا مقصد سمجھ سے بالاتر ہے کہ اب جو عوامی ہجوم مارکیٹوں میں دکھائی دے رہا ہے تو کیا اس وقت کورونا وائرس نہیں پھیل سکتا،کیا کورونا وائرس عید کے قریب ہی اپنی شدت میں تیزی لائے گی اور لوگوں کو متاثر کرے گی اور اس دوران اس کااثر بہت زیادہ ہوگا جبکہ اب اس وباء میں اتنادم خم نہیں کہ لوگوں کومتاثر کرسکے۔ اگرموجودہ صورتحال کاجائزہ لیاجائے تو یہ زیادہ خطرناک ہے کیونکہ لوگ جلدی بازی کی وجہ سے مارکیٹوں میں زیادہ سے زیادہ جانے کی کوشش کررہے ہیں کیونکہ ان کے دل ودماغ میں یہ بات باربار ڈالی جارہی ہے کہ کسی بھی وقت حکومت سخت فیصلے کرے گی اورمکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کسی بھی وقت کیاجائے گا۔
اب موجودہ اعلامیہ کے مطابق لوگ وقت کا انتظار نہ کرتے ہوئے بازاروں کا رخ لازمی کرینگے تاکہ وہ عید کی خریداری کرسکیں اور یہ فیصلے کورونا وباء کے حوالے سے مثبت نہیں بلکہ منفی ثابت ہونگے جس کی ذمہ داری عوام پر نہ ڈالی جائے۔ ایک طرف پیغام دیاجاتا ہے کہ کورونا وائرس کے متعلق زیادہ خوف پھیلانے سے گریز کیاجائے تاکہ عوام ذہنی تناؤ کا شکار نہ ہوجائیں تو دوسری جانب حکومت اپنے ہی فیصلوں سے عوام کو ذہنی دباؤ کا شکار بنارہی ہے لہٰذا حکومت اپنے فیصلوں اور حکمت عملی پر غور وخوض کرے ایس اوپیز پر عملدرآمد کویقینی بنائے اوقات کار کا تعین کرکے مارکیٹوں کو ماہ صیام کے آخر تک کھلے رکھنے کی اجازت دے تاکہ عوام تسلی سے خریداری کرسکیں اور ذہنی تناؤ کا بھی شکار نہ ہوں۔