|

وقتِ اشاعت :   May 9 – 2021

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے گزشتہ روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ میرے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے والوں کو خوش آمدیدکہتا ہوں،مجھے اللہ پاک نے بلوچستان کی خدمت کاموقع دیاہے انشاء اللہ بلوچستان کے عوام کی بھرپور خدمت کرونگا۔ انہوں نے کہاکہ حکومتی حلقے یا اپوزیشن کسی کی بلیک میلنگ میں نہیں آؤنگا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کا حالیہ بیان یقینا موجودہ سیاسی حالات کے حوالے سے ہے جو گزشتہ تین چار دنوں سے جاری ہے جہاں پر اطلاعات یہ آرہی تھیں کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے بعض سینئر ارکان وزیراعلیٰ بلوچستان سے ناراض ہیں اور اس کی وجہ باپ کے سینئر رہنماء صالح محمد بھوتانی سے ان کی وزارت کا قلمدان واپس لینا ہے۔

اس دوران صالح محمد بھوتانی سے اسپیکر میرعبدالقدوس بزنجو اور میرظہور بلیدی نے ملاقات کی تھی جس میں یہ باتیں سامنے آئیں کہ میرظہور بلیدی اور میرعبدالقدوس بزنجو بھی وزیراعلیٰ سے نالاں ہیں جبکہ میرظہور بلیدی کے سرکاری گھر کی واپسی کی خبریں بھی آئیں مگر اس کی تردید وزیرخزانہ نے اپنے ایک بیان کے ذریعے کیا کہ اس بات میں کوئی صداقت نہیں۔ البتہ پی ٹی آئی کے صوبائی صدر اور پارلیمانی لیڈر صوبائی وزیر سردار یارمحمد رند اور وزیراعلیٰ بلوچستان کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آئے ہیں اور دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے کے حوالے سے اپنے خیالات کاکھل کر اظہار بھی کیا ہے مگر باپ اور پی ٹی آئی کے کسی رہنماء کی جانب سے اس حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کا حالیہ بیان اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ حکومتی حلقوں میں بھی کسی نہ کسی جگہ اختلاف موجود ہے۔

اس لئے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے حکومتی حلقوں کو بھی متوجہ کیا ہے کہ وہ کسی کے بلیک میلنگ میں نہیں آئینگے اور وہ بلوچستان کی خدمت کرتے رہینگے۔ مگر وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان پر سب سے زیادہ تنقید اس بنیاد پر کی جارہی ہے کہ وزیراعلیٰ کے پاس سینئر ارکان کی ایک بڑی تعداد موجود ہے مگر ان سے وہ حکومتی معاملات پر مشاورت نہیں کرتے اور انفرادی طور پر فیصلے کرتے ہیں۔اب اس بات میں کتنی صداقت ہے یہ وہی وزراء اور باپ کے اراکین ہی بتاسکتے ہیں مگر جہاں تک صوبہ میں گورننس کی بات ہے تو اس پر وزیراعلیٰ بلوچستان کو ضرور سوچنا چاہئے کہ وہ جس طرح سے اپنے وژن کو آگے لیکر بڑھنا چاہتے ہیں اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ ایک بہترین ٹیم اور اپنی جماعت سمیت اتحادیوں کی مشاورت کے ساتھ چلیں کیونکہ چند مشیریا خوشامدپسند افراد کبھی کسی ایک جماعت کے ساتھ نہیں رہتے،ان کی ترجیح ہمیشہ حکمران جماعت کے ساتھ شامل ہونے کی ہوتی ہے مگر اپنی جماعت اور اتحادیوں کو ساتھ لیکر چلنے سے مستقبل میں بھی اس کے سیاسی فائدے اٹھائے جاسکتے ہیں۔

بلوچستان میں اس وقت بعض محکموں کی کارکردگی انتہائی خراب ہے جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور ان وزراء کو مکمل بااختیار کرتے ہوئے انہیں فیصلہ سازی میں شامل کیاجائے اور ان سب کی مشاورت سے پالیسی مرتب کی جائے تاکہ محکمے بہتر انداز میں اپنا کام کرسکیں چند افراد کے ساتھ حکومت نہیں چلائی جاسکتی اور ہر محکمے کے ذمہ داران کو اپنی کارکردگی خود ثابت کرنے کاموقع فراہم کیاجائے، مگربدقسمتی سے ہر معاملے میں چند مشیر آکر حکومتی مؤقف بیان کرتے ہیں جو ٹھیک نہیں ہے اور سب سے اہم محکمہ اطلاعات کا ہے

جس کا قلمدان ایک ذمہ دار اور سینئر رکن اسمبلی کو دیاجائے تاکہ وہ اس محکمے کو نہ صرف احسن طریقے سے چلاسکے بلکہ حکومتی کارکردگی کو بھی عوام کے سامنے لائے کہ اب تک حکومت نے کتنے اہم منصوبوں پر کا م کا آغاز کیا ہے اور کتنے پایہ تکمیل تک پہنچ رہے ہیں۔ جب تک مشترکہ حکمت عملی اور بہترین پالیسی نہیں اپنائی جائے گی یہ رنجشیں اسی طرح برقرار رہیں گی۔ جہاں تک اپوزیشن کی بات ہے تو اس حوالے سے اپوزیشن اتنی سکت نہیں رکھتی کہ وہ موجودہ حکومت کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لائے بلکہ سب سے حیران کن بات تو یہ ہے کہ سینیٹ انتخابات کے دوران اپوزیشن ارکان کے ووٹ بھی کسی اورجگہ پڑے جس سے واضح ہوتا ہے کہ اپوزیشن اندر سے کتنی مضبوط ہے۔