پاکستان گزشتہ کئی ادوار سے آئی ایم ایف سے قرض لیتارہا ہے اور تمام حکمرانوں نے معیشت کی نحیف حالت کوقرض لینے کی وجہ بتائی جبکہ آئی ایم ایف ورلڈبینک سمیت کوئی بھی ملک قرض دے گا تو اپنی شرائط رکھے گا، اگر کبھی آئی ایم ایف مہربان ہوکر قرض دے رہا تھا تو اس وقت بھی اس کی وجہ عالمی طاقتوں کے سیاسی مفادات تھے ،سپر پاور قوتیں خطے میں اپنے پنجے گاڑنے کیلئے داخل ہوئے تھے افغان وار کے دوران دنیا کا رویہ پاکستان کے ساتھ مکمل فرینڈلی رہا ہے اس کی وجہ پاکستان کو اپنے ساتھ ملاکر اس جنگ میں شامل کرنا تھا تاکہ زمینی راستے سمیت فوجی قوت اور دیگر دفاعی وسائل کو بروئے کار لایاجاسکے اور اس کی قیمت پاکستان نے بہت زیادہ چکائی ۔
پاکستان کو مالی حوالے سے اتناامداد نہیںملا جتنا جانی نقصان اٹھاناپڑا اور آج تک اس جنگ کے اثرات پاکستان پر پڑرہے ہیں اس لئے پاکستان باربار افغان امن عمل کو جلد پایہ تکمیل تک پہنچانے پر زور دے رہا ہے تاکہ خطے سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوسکے۔ بہرحال امریکی صدر جوبائیڈن نے ایک بار پھر امریکی فوج کی انخلاء کی بات کی ہے اس سے قبل29فروری2020 کو دوحہ میںامریکہ اور طالبان کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط ہوئے تھے جس میںطالبان قیادت اور امریکی حکام شریک ہوئے ۔معاہدے کے مطابق14ماہ کے اندر امریکی اور نیٹو فوج کا انخلاء، افغان سرزمین امریکی اور نیٹوفوج کیخلاف استعمال نہیںہوگی، ملابرادران بین الافغان مذاکرات کے ذریعے افغانستان میںموجود مختلف گروپس سے مذاکرات کرینگے ، سیاسی استحکام کویقینی بنایاجائے گا۔
19سال بعد یہ معاہدے کی صورت میںپہلی بار ہوا تھاجس میں50ممالک کے مندوبین موجود تھے مگر اب یہ معاہدہ سست روی کا شکار ہے طالبان کی جانب سے قیدیوں کی رہائی کامعاملہ بھی اب تک حل نہیں ہوسکا ہے اور طالبان نے حال ہی میں ترکی میںہونے والے کانفرنس میں شرکت اسی بنیاد پر نہیں کی تھی کہ جب تک گرفتار طالبان کی رہائی عمل میں نہیں آتی وہ کسی کانفرنس میں شرکت نہیں کرینگے جس سے واضح ہوتا ہے کہ معاملہ فی الحال اتنی آسانی سے حل ہوتا دکھائی نہیںدے رہا۔
تمام خطے کی صورتحال اور پاکستان پر قرضوں کا ذکر اس لئے کیاگیا کہ گزشتہ دنوں وزیر خزانہ شوکت ترین نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ آئی ایم ایف پروگرام خاصا مشکل ہے۔ حکومت مشکل حالات میں عالمی مالیاتی ادارے کے پاس گئی۔آئی ایم ایف نے سخت شرائط رکھیں جن کی سیاسی قیمت بھی ہے۔ اس سے قبل جب میرے دور میں آئی ایم ایف کے پاس گئے تھے تو دنیا کو دہشت گردی کا سامنا تھا اور آئی ایم ایف سے فرینڈلی پروگرام ملا جس میں شرائط نہیں تھیں لیکن اب حکومت آئی ایم ایف کے پاس گئی تو شرائط لگا دی گئیں۔
وزیرخزانہ نے جس دور کا ذکر کیا اس وقت دنیا کو جنگی حالات کے پیش نظرپاکستان کی ضرورت تھی مگر اب بھی پاکستان کا خطے میں رول انتہائی اہم ہے اور خاص کر افغانستان میں امن کے حوالے سے پاکستان کی شراکت داری کے بغیر یہ عمل مکمل نہیںہوسکتا جس کا اعتراف گزشتہ روز امریکی صدرجوبائیڈن نے اپنے خطاب کے دوران کیا کہ افغانستان میں امن کیلئے پاکستان نے بہترین کردار ادا کیا ہے ۔ اس لئے وزیرخزانہ شوکت ترین کی اس بات سے اتفاق نہیں کیاجاسکتا کہ فرینڈلی طور پر آئی ایم ایف نے قرض دیئے تھے لہٰذا ملکی پوزیشن کو مضبوط کرنے کیلئے معاشی پالیسی کے حوالے سے جھکاؤ کی بجائے میکنزم کی ضرورت ہے جو اب تک کمزور دکھائی دے رہی ہے جب تک اس کی سمت کو بہتر انداز میںآگے نہیں بڑھایاجائے گا معاشی صورتحال میں تبدیلی نہیں آئے گی اور اسی طرح سے قرض کسی نہ کسی بہانے ہر حکمران لیتا رہے گا ۔