بلوچستان میں حکومتی اتحاد کے در میان اختلافات دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں، بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی اپنی ہی جماعت کے اندر سب سے زیادہ کشیدگی دکھائی دے رہی ہے اور اس میں اسپیکر بلوچستان اسمبلی میرعبدالقدوس بزنجو فرنٹ پر نظرآرہے ہیں البتہ ان کی جانب سے کوئی بیان موجودہ سیاسی کشیدگی کے دوران واضح طور پر سامنے نہیں آیا ہے مگر ان کی سیاسی سرگرمیوں سے بہت کچھ واضح ہوتا جارہا ہے کہ وہ اپنے وزیراعلیٰ پر اب اعتماد نہیں کرتے چونکہ اس سے قبل بھی میرعبدالقدوس بزنجو نے موجودہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان سے اختلاف کیا تھا مگر بعد میں معاملات کو حل کردیا گیا جس میں چیئرمین سینیٹ میرصادق سنجرانی نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
مگر اب معاملات سلجھنے کی بجائے الجھتے جار ہے ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے جب اپنی ہی پارٹی کے سینئر رہنماء میرصالح محمد بھوتانی سے قلمدان واپس لیا تو اس کے ایک ہی روز بعد میرعبدالقدوس بزنجو نے وزیر خزانہ کے ہمراہ ان سے ملاقات کی اور گزشتہ دنوں ہی اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر صوبائی وزیرتعلیم سردار یارمحمد رند اور میرعبدالقدوس کے درمیان ملاقات ہوئی جس میں بلوچستان کی موجودہ سیاسی صورتحال پر بات چیت ہوئی اور ذرائع اس ملاقات کے حوالے سے بتارہے ہیں کہ ملاقات میں عدم اعتماد کی تحریک لانے پر بھی بات کی گئی تھی مگر اس ملاقات کی مکمل تفصیلات فی الحال اخفاء میں ہیں کہ اندرون خانہ کیا کچڑی پک رہی ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے بھی چند روز قبل سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک ٹوئٹ میں کہاتھا کہ حکومتی واپوزیشن کسی کے بلیک میلنگ میں نہیں آؤنگا،عدم اعتماد کی تحریک لانے والوں کو خوش آمدید کہوں گا،اللہ پاک نے مجھے بلوچستان کی خدمت کا موقع فراہم کیاہے۔
انشاء اللہ بلوچستان کی خدمت ضرور کرونگا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے حکومتی حلقوں کا ذکر کرکے یہ بات واضح کردی کہ حکومتی حلقوں کی جانب سے پس پردہ اس حوالے سے کچھ نہ کچھ کام ہورہا ہے وگرنہ وزیراعلیٰ بلوچستان حکومتی حلقے کا ذکرکبھی نہ کرتے۔ بہرحال گزشتہ روز ایک بار پھروزیراعلیٰ بلوچستان نے ایک خط کے ذریعے واضح پیغام اسپیکر کو دیا کہ ان کی سیاسی سرگرمیوں اور سیاسی جھکاؤ پر مکمل نظر رکھی جارہی ہے۔وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالقدوس بزنجو کو خط لکھ کر اپوزیشن سے نرمی برتنے کا الزام لگا یاہے۔وزیراعلیٰ بلوچستان کے خط کے متن کے مطابق اسپیکر ہاؤس کا نگران ہوتا ہے، اس کا کام ہاؤس کوڈسپلن کے ساتھ بامعنی بنانا ہوتا ہے، اپوزیشن ارکان حکومتی بنچوں کے خلاف غیر مناسب الفاظ استعمال کرتے ہیں اور اپوزیشن ارکان، حکومتی ارکان کو ’خاموش رہو، بیٹھ جاؤ‘ جیسے الفاظ کہتے ہیں۔خط میں کہا گیا ہے کہ اپوزیشن ارکان سوال وجواب کے سیشن میں آؤٹ آف ٹرن تقریرشروع کردیتے ہیں، اپوزیشن ارکان اسپیکرکا اختیار استعمال کرتے ہیں۔خط کے متن کے مطابق اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے کام کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
اسٹینڈنگ کمیٹیوں کی رپورٹ وقت پر جمع نہیں کرائی جاتی۔خط میں اسپیکر پر الزام لگایا گیا کہ اسمبلی اجلاسوں میں قواعد کے خلاف اپوزیشن کو زیادہ وقت دیا جاتا ہے اور حکومتی بنچزکے ارکان سے امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے۔جام کمال نے اسپیکرکو تجویز دی کہ دیگر صوبوں کی اسمبلیوں کے رولز اور قواعد کو مدنظر رکھا جائے۔خط میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومتی ارکان کے اسمبلی کی کارروائی کے حوالے سے کئی تحفظات ہیں لہٰذا اسپیکرحکومتی اور اپوزیشن ارکان کو مساوی وقت دیا کریں۔اس خط کے متن سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عید کے بعد بلوچستان میں سیاسی ماحول زیادہ گرم ہوجائے گا اور بعض حکومتی ارکان بھی کھل کر اپنے اختلافات کے حوالے سے مؤقف سامنے لائینگے فی الحال وہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں مگر یہ ضرور ہے کہ بلوچستان میں موجودہ سیاسی حالات کافائدہ اپوزیشن اٹھائے گی جبکہ حکومتی اتحاد زیادہ مضبوط نہیں رہے گی جوکہ موجودہ بیانات اور دیگر سرگرمیوں سے واضح دکھائی دے رہا ہے۔