|

وقتِ اشاعت :   May 13 – 2021

عام لوگوں تک معلومات کی مصدقہ رسائی کیلئے صحافی برادری انتھک محنت کرتی ہے اورلمحہ بہ لمحہ لوگوں کو ہر خبر سے باخبر رکھتی ہے۔ گزشتہ چند ماہ سے بھارت میں کورونا وباء کی دوسری لہرخطرناک صورت اختیار کرگئی ہے، شمشان گھاٹ اور قبرستانوں میں جگہ کم پڑگئی ہے، کورونا کیسز کی شرح میں اضافہ کے باعث بھارت کے بیشتر صحت عامہ کے مراکز میں جگہ ختم ہوچکی ہے لوگ فٹ پاتھوں پر اپنے پیاروں کو رکھ کر فریاد کررہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح ان کی مدد کی جائے۔ بعض لوگ اپنی مددآپ کے تحت متاثرہ مریضوں کو رضاکارانہ طور پر آکسیجن سمیت دیگر طبی آلات فراہم کررہے ہیں عالمی ادارہ صحت کی بڑی ٹیمیں بھی اس وقت بھارت میں کام کررہی ہیں مگرپھر بھی حالات کنٹرول سے باہر ہوتے جارہے ہیں۔

اس خطرناک لہر کی کوریج کرتے ہوئے پچاس صحافی ایک ماہ کے دوران کورونا وائرس کے باعث اپنی زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں جن میں نامور صحافی بھی شامل ہیں۔ صحافی برادری وہ طبقہ ہے جو خطرناک حالات کے باوجود بھی اپنے فرائض سرانجام دیتی ہے اور فرنٹ لائن میں رہتے ہوئے پُرخطرحالات کا سامنا کرتے ہوئے لوگوں تک معلومات پہنچاتی ہے۔ صحافی کسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہوں وہ سماجی ومعاشرتی تبدیلی میں اپنا کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اور رپورٹس وتجزیوں کے ذریعے ملک کے سربراہان کو مشورہ بھی دیتے ہیں تاکہ ملک بہتر سمت کی طرف گامزن ہوسکے اور یہی دیکھنے کو ملا ہے کہ جب سے بھارت میں کورونا وائر س تیزی سے پھیلا ہے تو بھارتی سرکار کی جہاں بھی ناقص کارکردگی رہی ہے۔

اس کی نشاندہی کی گئی ہے جبکہ ہجوم اور اجتماعات رکھنے کے حوالے سے شدید تنقید بھی کرتے رہے ہیں کہ ملک میں اس وقت کیا صورتحال چل رہی ہے اور سرکار کی جانب سے نرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سنگین غلطیاں کی جارہی ہیں جس کی ایک واضح مثال کمبھ کامیلہ ہے جس کے انعقاد پر بہت زیادہ تنقید کی گئی اور اسے روکنے کا مشورہ دیا گیا مگر وہاں کے پنڈتوں نے 2021ء میں اس میلے کے انعقاد کو مذہبی حوالے سے بہتر قرار دیا تھا مگر اس کے نتائج جس طرح سے بعد میں برآمد ہوئے وہ حالات سب کے سامنے بھارتی صحافیوں نے لائے کہ کس طرح کمبھ میلے میں جم غفیر اکٹھی ہوئی اورمیلے کے اختتام پرلوگوں نے اپنے اپنے علاقوں کا رخ کیا اس طرح کورونا وباء پورے بھارت میں پھیل گئی۔ اس وقت بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے صحافیوں کے مشوروں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میڈیا پر ہونے والی تنقید پر کان تک نہیں دھرے اور اب حالات کنٹرول میں بالکل نہیں آرہے۔

بھارت مکمل دیوالیہ ہوتا جارہا ہے ہر شعبہ میں کام ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے اور معیشت بری طرح متاثر ہوکر رہ گئی ہے۔ بھارت میں 24 گھنٹوں میں کورونا کے مزید تین لاکھ 29 ہزار متاثرین رپورٹ ہوئے جبکہ تین ہزار 800 سے زیادہ افراد جان کی بازی ہار گئے۔کورونا وباء کے دوران عوامی مشکلات اور صحت کے شعبے کی خامیوں پر توجہ دلانے کے لیے صحافی اب بھی سرگرم ہیں تاہم وہ خود بھی اس وباء کا شکار ہورہے ہیں۔ ریاست آندھرا پردیش کے سرکاری اسپتال میں آکسیجن نہ ملنے پر 11 مریض دم توڑ گئے۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے کیمپس میں 18 دن میں 34 اساتذہ اور ریٹائرڈ عملے کی کورونا کے باعث اموات رپورٹ ہوئی ہیں۔

دریائے گنگا میں تیرتی لاشیں سامنے آنے پر اطراف کے گاؤں میں خوف اور تشویش پھیل گئی ہے گویا قیامت کا سماں ہے۔بہرحال اس وباء سے مقابلہ کرنے کیلئے زمینی حقائق کو سمجھنے کیلئے صحافی برادری کے مشوروں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے کیونکہ حکومتی نمائندگان ہر جگہ اورہرمقام پر نہیں جاسکتے مگر صحافی خبر کی کھوج کیلئے ہر جگہ نظر آتے ہیں اس لئے انہیں حالات کا بخوبی علم ہوتا ہے اس لئے ان کی تنقید کو مثبت پہلو سے دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی بڑے بحران اور مشکل حالات سے بچاجاسکے۔