|

وقتِ اشاعت :   May 19 – 2021

بلوچستان حکومت کے ناراض اراکین اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے درمیان اختلافات کی خبریں گزشتہ ماہ سے گردش کررہی ہیں جس میں ایک بات کو تواتر کے ساتھ دہرایاجارہا ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کا رویہ اپنی جماعت کے بعض اراکین اور اتحادی جماعت پی ٹی آئی کے ساتھ بہتر نہیں ہے جن میں میرعبدالقدوس بزنجو جو اس وقت اسپیکر بلوچستان اسمبلی کے منصب پر فائز ہیں، وزیراعلیٰ بلوچستان کے ہی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے پہلے بھی اپنی ناراضگی کا اظہار کیا تھا جس کے بعد وزیراعلیٰ اور اسپیکر کے درمیان تعلقات کو دوبارہ ٹریک پر لانے کیلئے چیئرمین سینیٹ میرصادق سنجرانی نے کردار ادا کیا تھا۔

جس کے بعد کچھ عرصہ تک خاموشی رہی مگر گزشتہ ماہ جب پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر اور صوبائی وزیرتعلیم سردار یارمحمد رند نے اسمبلی فلور پر کھڑے ہوکر وزیراعلیٰ بلوچستان پر نہ صرف تنقید کی بلکہ اپنے ہی وزیراعظم کے رویہ پر شکوہ کرتے ہوئے کہاکہ وزیراعظم کے معاون خصوصی کا عہدہ صرف ایک نوٹیفکیشن کی حد تک ہے ان کے ساتھ کسی حوالے سے مشاورت نہیں کی جاتی اور نہ ہی اہم فیصلوں میں انہیں اعتماد میں لیاجاتا ہے۔

یقینا سردار یارمحمد رند کا اشارہ بلوچستان کے سیاسی معاملات اوربلوچستان حکومت کے حوالے سے ہی تھا چونکہ مرکز میں ویسے ہی بلوچستان کی نمائندگی وفاقی کابینہ میں نہیں ہے اور جب ماضی میں تھی تو اس وقت کی جماعتوں کے قائدین نے بھی اپنے ہی جماعت کے وزیروں مشیروں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے فیصلے مسلط کئے جس کا اظہار خود بلوچستان سے تعلق رکھنے والی سیاسی شخصیات کرتی رہی ہیں اور یہ ہمیشہ وفاقی حکومتوں کاوطیرہ رہا ہے مگر ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں مصلحت پسندی اورکسی حد تک اپنی سیاسی کمزوریوں کے باعث سمجھوتہ پالیسی کے تحت خاموشی اختیار کرتے ہیں جب حکومتی مدت ختم ہوجاتی ہے تب اپنے گلے شکوے سامنے لاتے ہیں مگر سردار یارمحمد رند اول روز سے ان رویوں کے حوالے سے شدید ناراضگی کا اظہار کرتے آرہے ہیں اور اب بھی انہوں نے کسی قسم کے لچک کامظاہرہ نہ کرتے ہوئے اپنے مؤقف پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں ۔

اگر بلوچستان عوامی پارٹی کی بات کی جائے تو میرعبدالقدوس بزنجو اور سردار صالح بھوتانی کے علاوہ کسی اور وزیر یا رکن نے کھل کر وزیراعلیٰ بلوچستان کے متعلق بات نہیں کی ہے۔ سردار صالح بھوتانی سے جب وزارت کا قلمدان واپس لیاگیا تو انہوں نے بیان دیا کہ انہیں اور ان کے ساتھیوں میں سے کسی کو بھی اعتماد میں نہ لیا گیا اور وزیراعلیٰ بلوچستان نے ذاتی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا ہے البتہ سردار صالح محمد بھوتانی نے کسی ساتھی کانام نہیں لیا اور نہ ہی کوئی باپ سے تعلق رکھنے والے ساتھی نے اس حولے سے ردعمل دیا ہے مگر خبریں بہت سی سامنے آرہی ہیں کہ بعض ارکان وزیراعلیٰ بلوچستان سے ناراض ہیں اور جلد ہی اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کرینگے۔

گزشتہ روز ایک بار پھر یہ خبر گردش کرتی دکھائی دی کہ اسپیکر میرعبدالقدوس بزنجو، وزیرخزانہ ظہور بلیدی سمیت اہم وزراء اپنے عہدوں سے مستعفی ہوجائینگے اور اس میں اتحادی جماعت پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر سردار یارمحمد رند کا نام بھی شامل ہے کہ ان کے درمیان ایک مشاورتی نشست ہوئی ہے جس میں انہوں نے مستعفی ہونے کافیصلہ کیا ہے ۔وزیرخزانہ میرظہور بلیدی نے اس خبر کی تردید کی ہے جبکہ پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق سردار یارمحمد رند عید تعطیلات کی وجہ سے شوران میں موجود ہیں اور مشاورتی نشست کی بھی تردید کی گئی ہے مگر موجودہ سیاسی کشیدہ صورتحال کے حوالے سے پی ٹی آئی ذرائع نے کسی طرح کی معلومات دینے سے معذرت کی ہے۔

اطلاعات کے مطابق آئندہ آنے والے تین چار دنوں کے اندر سیاسی صورتحال واضح ہوجائے گی بعض حکومتی حلقوں کی جانب سے یہ بات بھی کی جارہی ہے کہ موجودہ سیاسی اختلافات کو ختم کرنے کیلئے بات چیت بھی ہورہی ہے اور عین ممکن ہے کہ معاملات حل ہوجائیں تاکہ بجٹ کو مشترکہ طور پر پیش کیاجاسکے مگریہ باتیں بھی سامنے آرہی ہیں کہ بجٹ کی تیاری کے حوالے سے وزیرخزانہ سمیت بعض ارکان کی رائے نہیں لی جارہی اور نہ ہی بجٹ تیاری کے متعلق اجلاس میں انہیںمدعو کیاجارہا ہے جوناراضگی کا سبب بن رہا ہے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے اگر سیاسی صورتحال کا جائزہ لیاجائے تو یہ انتہائی مشکل دکھائی دے رہا ہے کہ وزیراعلیٰ سے اختلاف رکھنے والوں کو اتنے ارکان کی حمایت حاصل نہیںکہ وہ عدم اعتماد کی تحریک لاسکیں جبکہ اپوزیشن نے موجودہ حکومتی جماعتوں کے درمیان اختلافات پر مکمل خاموشی اختیار کررکھی ہے جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اپوزیشن مطمئن ہے کہ کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی بلکہ بجٹ سے قبل ہی تمام تر اختلافات ختم ہوجائینگے اور ایسی سیاسی کشیدہ ماحول ہر بجٹ کے وقت دیکھنے کو ملتا ہے اور کچھ لوکچھ دوسے معاملات حل کئے جاتے ہیں۔ قوی امکان ہے کہ چند روز سیاسی گرما گرمی کے بعد پھر حکومتی اتحاد ایک پیج پر نظر آئے گی مگر سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں اس لئے سیاسی تبدیلی کا سونامی ٹل بھی سکتا ہے یا پھر شدت بھی اختیار کرسکتا ہے۔