حکومت کی جانب سے میاںشہباز شریف کانام ای سی ایل میں ڈالنے کے بعد یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کسی صورت نہیں چاہتے کہ شریف فیملی کے خاندان میں جن افراد پر کیسز چل رہے ہیں انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے جس کی ایک واضح مثال شہبازشریف کو لندن جانے سے روکنا ہے باوجود اس کے کہ عدالتی فیصلے میں انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی تھی مگر ائیرپورٹ سے انہیں اپ لوڈ کردیا گیا۔ ایف آئی اے نے تمام تر وجوہات سے لیگی رہنماؤں کو آگاہ کیا جبکہ ائیرپورٹ پر موجود لیگی رہنماؤں نے عدالتی فیصلہ ان کو دکھایا ۔
وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹرپر ایک بیان جاری کیا جس میں کہاگیا کہ کابینہ کی منظوری اور قانونی ضابطے مکمل ہونے پر ن لیگ کے رہنماء شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا ہے اور متعلقہ ریکارڈ اس ضمن میں اپ ڈیٹ کردیا گیا ہے ۔اس تمام تر صورتحال سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نوازشریف کے بیرون ملک جانے کے بعد واپس نہ آنے پر حکومت سخت خفاء ہے اور اس کا برملا اظہار وزیراعظم عمران خان مختلف فورمز پر کرتے آئے ہیں کہ کس طرح سے بیماری کا بہانہ بناکر نواز شریف بیرون ملک فرار ہوگئے ، اس لئے اب شریف فیملی پر کسی صورت بھروسہ نہیں کرسکتے بلکہ انہیں ملک کے اندر اپنا علاج سمیت کیسز کا سامنا کرنا ہوگا ہم اب کسی ڈرامے کا شکار نہیں ہونگے ۔
دوسری جانب شہباز شریف کی سیاست کے حوالے سے ہر وقت یہ بات کہی جاتی ہے کہ وہ مقتدر حلقوں کے ساتھ ملکر معاملات کو ٹریک پر لانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ مسلم لیگ ن اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان موجوددوریاں ختم ہوں اور یہ باتیں بھی سامنے آئی ہیں کہ شہبازشریف کو ریلیف بھی مقتدرہ حلقوں کی جانب سے دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنی جماعت کے رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کرکے سخت گیر مؤقف کی بجائے اپنے لہجوں میں نرمی لائیں اور اپنے بڑے بھائی نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو بھی اس حوالے سے باور کرائیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کی پالیسی اپنائیں تاکہ درمیان کا راستہ نکل سکے جس سے انہیں بعض حوالے سے ریلیف مل سکے گا۔ واضح رہے کہ نیب کیسز کے حوالے سے پہلے ہی اسٹیبلشمنٹ نے یہ بات کہی ہے کہ ان سیاسی معاملات میں ان کو درمیان میں نہ لایاجائے یہ حکومت اوراپوزیشن کا مسئلہ ہے جنہیں خود دیکھنا چاہئے یعنی شہباز شریف کے بیرون ملک جانے پر اسٹیبلشمنٹ کو کوئی اعتراض نہیں ۔
اب یہ باتیں گردش کررہی ہیں کہ وزیراعظم عمران خان بعض معاملات پر اسٹیبلشمنٹ کی باتیں ماننے سے انکار کررہے ہیں گزشتہ تین سالوں کے دوران وزیراعظم عمران خان کی جانب سے جو ریلیف فراہم کیا گیا تھا اس میں مقتدر حلقوں کا اہم کردار تھا اور اب عمران خان اپنی پالیسی بدلتے دکھائی دے رہے ہیں، کیا اس سے پی ٹی آئی کی حکومت کو خاص فائدہ ہوگاجوکہ مشکل لگتا ہے کیونکہ اب صرف دو سال حکومت کے رہ گئے ہیں اوروہ ان اقدامات سے کوئی بڑی سیاسی کامیابی حاصل نہیں کرسکیں گے البتہ جب حکومتی مدت پوری ہوجائے گی اس کے بعد پی ٹی آئی اور وزیراعظم کی جانب سے یہ بیانیہ دہرایا جائے گا کہ دیکھیں ہم نے تو مافیاز کیخلاف بہت کچھ کیا اور کرپشن کرنے والوں کو کٹہرے میں لایامگر اس کے باوجودبھی یہ مشکل دکھائی دے رہا ہے۔
کہ آئندہ عام انتخابات میں وہ دوبارہ بھاری مینڈیٹ لے سکیں شاید اس کی سب سے بڑی وجہ ملک کے اندر معاشی اور عوامی مسائل ہیں جن میں کوئی خاص اہداف موجودہ حکومت نے حاصل نہیں کئے اور عوام کا پی ٹی آئی سے دلبرداشتہ ہونے کی جھلک ملک میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں دکھائی دی جس پر انہیں کسی بھی حلقے سے کامیابی حاصل نہیں ہوئی بلکہ ن لیگ زیادہ حاوی رہی یہاں تک کہ کراچی میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں بھی پی ٹی آئی کا اتنے مارجن سے ووٹ لینا پیپلزپارٹی کیلئے بڑا دھچکا ہے بعض حلقے یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ آئندہ عام انتخابات میں ن لیگ بھاری اکثریت لے کر حکومت بنائے گی جبکہ یہ بھی کہاجارہا ہے کہ اگلا وزیراعظم مریم نواز ہونگی ۔بہرحال یہ تمام تر تجزیے ہیں مگر موجودہ سیاسی صورتحال اور تبدیلی جو دکھائی دے رہی ہے اس سے یہی نتیجہ اخذ کیاجاسکتا ہے کہ ن لیگ ایک بار پھر اپنی پوزیشن سنبھالے گی اور مقتدر حلقوں کے ساتھ تعلقات میں بہتری لائے گی تاکہ معاملات احسن طریقے سے حل ہوسکیں جس میں ٹکراؤکا عنصر بالکل ہی شامل نہ ہو ۔