|

وقتِ اشاعت :   May 21 – 2021

کراچی کے علاقے گلبرگ میں مبینہ طور پر ‘پالتو’ شیر کے حملے میں 10 سالہ بچہ زخمی ہوگیا جبکہ پولیس نے دو ملزمان کو گرفتار کرلیا۔

سوشل میڈیا پر واقعے کی ویڈیو ایک ہفتے قبل وائرل ہوگئی تھی اور حکام کو نوٹس لینے پر زور دیا گیا تھا۔

ضلع وسطی کے سینئر سپرینٹنڈنٹ آف پولیس کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ‘گلبرگ پولیس نے پالتو شیر کی جانب سے بچے پر حملے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے فوری بعد اقدامات کرتے ہوئے مالک اور گارڈ کو مقدمہ درج کرنے کے بعد گرفتار کرلیا۔

گرفتارمشتبہ افراد کی شناخت سعد اسلم اور روشن خان کے نام سے ہوئی جبکہ بچے کی حالت خطرے سے باہر بتائی جارہی ہے، جن کو پیٹ اور ٹانگوں پر زخم آئے تھے۔

ایس پی گلبرگ محمد اظہر خان مغل نے کہا کہ 14 مئی کو گلبرگ بلاک 11میں پالتو شیر نے بچے پر اچانک حملہ کیا۔

سوشل میڈیا پر واقعے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد شادمان ٹاؤن کے ڈپٹی سپرینٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) اور گلبرگ اور سمن آباد تھانے کے ہاؤس اسٹیشن افسر (ایس ایچ او) پر مشتمل ٹیم تشکیل دی گئی جس نے قانونی کارروائی شروع کی اور ملزمان کو گرفتار کرلیا۔

ایس پی مغل کا کہنا تھا کہ ابتدائی تفتیش کے دوران اسلم نے بتایا کہ ان کے بھائی اسامہ شیر کو گھر لے کر آیا تھا اور شیر نے بچے پر اچانک حملہ کردیا جس کے بعد وہ شیر فارم ہاؤس لے گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ مزید تفتیش جاری ہے۔

‘جنگلی جانور قید میں ہیں’

چیف جسٹس گلزار احمد کی بیٹی انیتا گلزار احمد نے رواں ماہ کے اوائل میں مفاد عامہ کے تحت جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے بل کے نفاذ کے لیے پٹیشن دائر کی تھی اور پنجاب وائلڈ لائف ایکٹ 1974 کا سیکشن 12 کی قانونی حیثیت بھی چیلنج کردی تھی، جو کسی کو بھی نجی طور پر جنگلی جانور رکھنے اور پالنے کی اجازت دیتا ہے۔

درخواست گزار کی جانب سے ایڈووکیٹ ابوذر سلمان خان نیازی نے دلائل دیے کہ آرٹیکل 12 کے باعث کئی افراد نے جنگلی جانور بغیر مطلوبہ اقدامات اور ان کا خیال رکھے بغیر تفریح کے لیے رکھا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جنگلی جانور پر تشدد ہورہا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے ان کی صحیح جگہ ان کا متعلقہ قدرتی مقام ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن نے صوبائی لا افسر کو متعلقہ حکام سے ہدایات لے تفصیلی رپورٹ جمع کرائیں کہ سیکشن 45 کے تحت اس حوالے سے قواعد ترتیب دیے گئے یا نہیں اور پنجاب میں جنگلی جانوروں کی بہبود کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔

اسی طرح اسلام آباد ہائی کورٹ نے جولائی 2020 میں تفصیلی فیصلہ دیا کہ جنگلی جانوروں کی بہتر جگہ چڑیا گھر کے بجائے قدرتی ماحول ہے۔