|

وقتِ اشاعت :   May 22 – 2021

پاکستان تحریک انصاف کے اندر سے ایک گروپ کا برآمد ہونا اور الگ دھڑا بناکر پنجاب اسمبلی میں ہم خیال گروپ کے نام سے تشکیل دینا پی ٹی آئی کیلئے ایک بڑادھچکا ہے۔ ہم خیال گروپ کے تمام ارکان اس وقت جہانگیر ترین کے ساتھ کھڑے ہیں اسی گروپ نے گزشتہ ماہ وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی تھی اور جہانگیر ترین کے اوپر جو کیسز چل رہے ہیں ان پر تفصیلی بات چیت کی گئی تھی مگر سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور جہانگیر ترین کی ایک خفیہ ملاقات بھی ہوچکی ہے جسے اب تک چھپایاجارہا ہے۔

ویسے ملاقاتوں پر کسی طرح کی پابندی نہیں ہے اور اسے خفیہ رکھنے کی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ وزیراعظم عمران خان اور جہانگیر خان ترین قریبی دوست بھی رہ چکے ہیں نیز پی ٹی آئی کی حکومت بنانے کیلئے آزاد ارکان کی حمایت حاصل کرنے کیلئے جہانگیر ترین کا کلیدی اور انتہائی اہم کردار رہا ہے کہ کس طرح سے جہانگیر ترین نے اپنے وسائل استعمال کرتے ہوئے ان ارکان کو پی ٹی آئی میں شامل کیا اور پی ٹی آئی نے پنجاب میںحکومت بنائی اور اس طرح مرکز میں ایک اچھی خاصی تعداد کی شمولیت سے پی ٹی آئی کو حکومت سازی میں فائدہ پہنچامگر اب اس طرح کی ملاقاتوں کو خفیہ رکھنے کے پیچھے یقینا وزیراعظم عمران خان کا وہ بیانیہ ہے جو گزشتہ تین سال سے وہ دہراتے آرہے ہیںکہ وہ کسی کی بلیک میلنگ میں نہیں آئینگے اور نہ ہی کسی کو این آر او دینگے۔

ایک بار اسمبلی فلور پر کھڑے ہوکر وزیراعظم عمران خان نے کہاتھا کہ مائنس عمران خان کا فارمولا استعمال کرنے والے یہ بات ذہن میں رکھ لیں کہ میرے ارد گرد اسمبلی میں بیٹھے میرے ساتھی اس مشن کو آگے بڑھائینگے مگر پی ٹی آئی کسی سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی مگر وقت نے ایسا پلٹا کھایا کہ اب ان کی اپنی جماعت کے اندر سے این آر او مانگنے کی بجائے دباؤ بڑھایاجارہا ہے کیونکہ جہانگیر ترین کے ساتھ کھڑے اراکین اسمبلی جنہوں نے ہم خیال گروپ تشکیل دیا ہے وہ این آر او کے طلبگار دکھائی نہیں دے رہے بلکہ باقاعدہ فرنٹ پر آکر پارٹی کے اندر پارٹی بناکریہ اعلان کررہے ہیں کہ اب پنجاب حکومت کی جانب سے سیاسی انتقامی کارروائیوں کو ہم برداشت نہیں کرینگے جس کااظہار ہم خیال گروپ کے ارکان نے گزشتہ روز کھل کر کیا ۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم خیال گروپ میں شامل بعض ارکان پی ٹی آئی کے بنیادی ارکان نہیں ہیں اور نہ ہی وہ کسی ایک جماعت کے ساتھ مستقل بنیادوں پر رہ کر سیاست کرتے آرہے ہیں۔

بلکہ یہ وہ افراد ہیں جو وقت وحالات کے تقاضوں کے مطابق اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرکے بینفشری بن جاتے ہیں ۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم خیال گروپ کی تشکیل میں صرف جہانگیر ترین اور ان ارکان کی قربت ومحبت شامل نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک بڑی طاقت ہے جنہوں نے انتخابات کے بعد جہانگیر ترین کے ذریعے ان کی شمولیت پی ٹی آئی میں یقینی بنانے کیلئے کردار ادا کیا تو اس تمام تر کشیدہ صورتحال کے پیچھے مقتدرہ حلقے ہیں جو اب بعض معاملات پر وزیراعظم عمران خان سے اختلاف رکھ رہے ہیں مگروزیراعظم عمران خان اپنی بات منوانے کیلئے تین سالہ پالیسی کو ترک کرتے ہوئے اب اپنے فیصلے صادر فرمارہے ہیں تو اس گروپ کی تشکیل کا بنیادی مقصد یہ واضح اشارہ ہے کہ اب بھی وقت ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام کو برقرار رکھنے کیلئے مخالفین کو زیادہ دیوار سے لگانے اور تُن کر رکھنے کی پالیسی کو ترک کرتے ہوئے۔

بعض اہم معاملات پر ہماری تجاویز کو اپنایا جائے ۔ اگر صورتحال اسی طرح کشیدہ رہی تو پنجاب میں بڑی سیاسی تبدیلی کا اشارہ دیدیا گیا ہے دیگر حصوں سے بھی دھڑے برآمد ہونا شروع ہوجائینگے اور اتحادی بھی اپنا ہاتھ کھینچ لینگے جس کے بعد کسی بھی بڑی سیاسی تبدیلی اور طوفان کو نہیں روکاجاسکتا۔بہرحال آئندہ چند روز ملکی سیاست میں اہم ہیں کہ سیاسی رویوں میں کتنی تبدیلی آئے گی اور رعایت وریلیف کے ماحول کو سازگار بنایاجائے گا یا پھر کشیدہ صورتحال کے نتیجے میں سیاسی بھونچال آئے گا۔