خطے میں اس وقت سب سے زیادہ اہم افغانستان میں قیام امن ہے جس کیلئے گزشتہ کئی برسوں سے کوششیں جاری ہیں کہ کسی نہ کسی طرح سے افغان جنگ کاخاتمہ ہوجائے اور وہاں کے تمام اسٹیک ہولڈرز کی رضامندی سے ایسی حکومت کا قیام عمل میں آئے کہ دوبارہ افغانستان میں شورش پیدا نہ ہو مگربدقسمتی سے عالمی طاقتیں خطے میں اپنی تھانیداری برقرار رکھنے کیلئے افغانستان کو اپنے بیس کے طور پر استعمال کرتے آرہے ہیں نتیجہ خون ریز جنگ برآمد ہوا ہے.
گزشتہ چند دنوں سے امریکی اڈوں پر زیادہ بحث ہورہی ہے امریکہ کے متعلق پہلے سے ہی یہ خدشات موجود ہیں کہ وہ یہاں سے فوجی انخلاء ضرور چاہتاہے مگر اپنا اثرونفوذ کسی نہ کسی طرح سے قائم رکھنے کیلئے مختلف میکنزم اپنائے گی امریکی اڈوں پر غم وغصہ کا اظہار اس وقت کیاگیا کہ جب امریکی فوجی حکام کی جانب سے یہ بات کہی گئی۔ اب افغان طالبان نے دوحہ سے اپنا ایک واضح بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ خطے میں ہمسایہ ممالک امریکہ کو اڈے فراہم نہیں کریں گے۔ انہوں نے ساتھ ہی واضح کیا کہ اگر خدانخواستہ ایک مرتبہ پھر ایسا کوئی قدم اٹھایا گیا تو یہ عظیم تاریخی غلطی ہو گی جو تاریخ میں لکھی جائے گی۔ افغان طالبان کاکہناہے کہ ایسی کسی غلطی پر طالبان خاموش نہیں رہیں گے۔
افغان طالبان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایسی خبریں سامنے آئی ہیں کہ امریکہ افغانستان سے انخلاء کے بعد ہمارے ہمسائے میں اس مقصد کے لیے رہنا چاہتا ہے تاکہ وہ ہمارے ملک میں آپریشنز کرسکے۔افغان طالبان نے اپنے بیان میں واضح کیا ہے کہ ہم نے بار بار اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ ہماری سرزمین کسی دوسرے کی سلامتی کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اور ہم بھی چاہتے ہیں کہ کوئی دوسرا بھی اپنی سرزمین اور فضائی حدود ہمارے ملک کے خلاف استعمال نہ کرے۔دوسری جانب وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے چند روز کے دوران متعدد مرتبہ واضح انداز میں کہا ہے کہ پاکستان امریکہ کو فوجی بیسز فراہم نہیں کرے گا۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ بھی دو ٹوک انداز میں چند روز قبل واضح کرچکے ہیں کہ تمام قیاس آرائیاں بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ ہیں۔امریکہ نے 11 ستمبر تک افغانستان سے اپنے فوجی انخلاء کا اعلان کر رکھا ہے جس کے بعد سے عالمی ذرائع ابلاغ میں یہ قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ وہ کسی دوسرے ملک میں اپنے فوجی اڈے قائم کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے تاکہ بوقت ضرورت افغانستان میں آپریشنز کرسکے۔امریکہ اگر سنجیدگی کے ساتھ افغانستان میں امن چاہتا ہے تو مزید کسی اڈے اور آپریشنز کے متعلق نہ سوچے کیونکہ اس کے یقینا بھیانک نتائج برآمدہونگے.
کیونکہ امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں جنگ بندی کے امن معاہدے میں یہ واضح طور پر لکھا ہے کہ طالبان اپنی سرزمین امریکہ کیخلاف استعمال ہونے نہیں دیں گے جس پر طالبان نے متفق ہوکر دستخط کئے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ امریکہ بھی جنگی سوچ سے باہر نکلتے ہوئے ایک پُرامن افغانستان کیلئے معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہوں وگرنہ دہائیوں سے جو آگ افغانستان میں لگی ہوئی ہے وہ اس اقدام کے بعد مزید خطرناک شکل اختیارکرجائے گی۔اس لئے ذمہ داری کامظاہرہ کرتے ہوئے جنگی حکمت عملی کو ترک کرتے ہوئے امن کا راستہ اپنایاجائے تاکہ دوبارہ جنگی ماحول کا خطرہ پیدا نہ ہو۔