بلوچستان میں پانی کا بحران انتہائی دیرینہ ہے، ہر سال بلوچستان کے مختلف اضلاع کو قحط سالی کا سامناکرناپڑتا ہے جس کے باعث بڑے پیمانے پر انسانی بحران جنم لیتا ہے اور لوگوں کے مال مویشی بھی اس کی نذر ہوجاتے ہیں۔ بلوچستان کے وہ اضلاع جو قحط سالی سے متاثر ہوتے ہیں ان کی جانب سے بارہا احتجاج کیاجاتا ہے مگر اس مسئلے کوآج تک حل نہیں کیا گیا۔ المیہ تو یہ ہے کہ بلوچستان کے بیشتر اضلاع آج بھی پانی جیسے بنیادی سہولت سے محروم ہیں شاید ہی کوئی ایسا ضلع ہو جہاں پانی بحران کا نہ ہو۔
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں واٹر پلانٹس پر عوام کا رش اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اتنی بڑی آبادی والے شہر کے عوام کیلئے پانی کا مسئلہ اب تک مستقل بنیادوں پر حل نہیں کیا گیا ہے۔ مانگی ڈیم جو گزشتہ حکومت کے وقت سے زیر تعمیر ہے اب تک مکمل نہیں ہوا ہے جس کی بنیاد رکھتے ہوئے یہ نوید سنائی گئی تھی کہ مانگی ڈیم کی تعمیر سے کوئٹہ شہر میں پانی کا مسئلہ حل ہوجائے گا مگر مانگی ڈیم آج کل کسی تذکرہ میں نہیں آتا ہے کہ یہ منصوبہ کہاں تک پہنچا ہے گزشتہ حکومت نے کتنی رقم اس ڈیم کیلئے مختص کررکھی تھی .
کتنے خرچ ہوئے کوئی حساب کتاب اور جواب نہیں اور اب موجودہ وقت میں مانگی ڈیم منصوبہ کی صورتحال کیا ہے کوئٹہ کے شہری اس سے بالکل لاعلم ہیں۔ دوسری جانب گزشتہ دور میں یہ خوشخبری بڑے زور وشور سے سنائی جا رہی تھی کہ 100کے قریب ڈیم بلوچستان میں تعمیر کئے جائینگے جس کے بعد بلوچستان کے عوام کا یہ دیرینہ مسئلہ حل ہوجائے گا سوڈیمز کی تعمیر پر کوئی لب کشائی نہیں ہوتی کہ ان دعوؤں کا زمینی حقائق سے براہ راست کوئی تعلق تھا بھی یا نہیں۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار جب کوئٹہ تشریف لائے تھے تو انہوں نے بڑے دبنگ انداز میں بلوچستان میں پانی کے مسئلے کے متعلق کیس کی سماعت کے دوران فیصلے سنائے.
مگر وہ تو صرف شعبدہ بازی ثابت ہوا اور آج سابق چیف جسٹس مکمل طور پر منظر عام سے غائب ہیں،ویسے بھی انہوں نے ملک کے بڑے ڈیم کی رکھوالی کرنا تھا اور باقاعدہ یہ اعلان کیا تھا کہ ڈیم کی چوکیداری کیلئے خود بیٹھوں گا۔ بہرحال اس وقت ملک بھر میں پانی کا مسئلہ چل رہا ہے سندھ اپنی جنگ پانی کے حوالے سے لڑرہا ہے مگر بلوچستان حکومت اس سلسلے میں مکمل خاموش ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ذاتی طور پر سندھ کے پانی کے مسئلے پر دلچسپی لیتے ہوئے سندھ حکومت کے تحفظات دور کرنے کی بات کی ہے کیا بلوچستان حکو مت اپنے پانی کے حق کیلئے بات کرنے کی سکت نہیں رکھتی؟ کیونکر اس قدر خاموشی اختیار کی گئی ہے اتحادی ہونے کے ناطے اتنی قربت میں رہ کر عوامی مسائل کووفاق کے سامنے نہ اٹھانا افسوسناک عمل ہے۔
لہٰذا حکومت بلوچستان کو چاہئے کہ صوبہ میں پانی کے مسئلے کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرے آج بھی بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں پانی کی عدم فراہمی کے حوالے سے احتجاج جاری ہیں محض طفل تسلیوں کے عملاََ کچھ نہیں کیاجارہا، یہ ضلعی انتظامیہ کی نہیں بلکہ حکومت بلوچستان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس بڑے مسئلے کو حل کرنے کیلئے مرکز سے بات چیت کرے اور بلوچستان کے کیلئے اپنے پانی کا حق مانگے۔ موجودہ حکومت جب معرض وجود میں آئی تھی تو یہ باتیں روزاول سے کہی جارہی تھیں کہ ان کی ترجیحات عوام کے بنیادی مسائل حل کرنا ہے بلوچستان کو ترقی کی جانب گامزن کرنا ہے لہٰذا ترقی کے ساتھ شہریوں کی ضروریات کو پورا کیاجائے اور پانی سب سے اہم ضرورت ہے جس کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ یہ دیرینہ مسئلہ حل ہوسکے۔