اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر وولکن بوزکر کا گزشتہ روزاسلام آباد میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ فلسطین پر بے عملی اقوام متحدہ اور سکیورٹی کونسل کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی نے پچھلے ہفتے فلسطین کی صورتحال پر میٹنگ بلائی، اس میٹنگ کا مقصد تھاکہ سکیورٹی کونسل کی خاموشی اور ڈیڈلاک کا ازالہ کیا جائے، اس اہم معاملے پر بے عملی اقوام متحدہ اور سکیورٹی کونسل کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہے، امید ہے سکیورٹی کونسل میں بھی اس اہم اور ضروری مسئلے پر متفقہ آواز سنائی دے گی۔
وولکن بوزکر کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی میں سینکڑوں فلسطینیوں کی جانیں چلی گئیں، پاکستانی وزیر خارجہ نے فلسطینیوں کے حقوق کے لیے مضبوط مؤقف اور حمایت کا اظہار کیا، اس وقت مذاکرات کی فوری ضرورت ہے تاکہ اسرائیلی قبضے کو ختم کیا جاسکے، دو خود مختار ریاستوں کا قیام عمل میں لانے کے لیے مذاکرات کی فوری ضرورت ہے، مشرق وسطیٰ میں امن کی بحالی تک یواین جنرل اسمبلی آرام سے نہیں بیٹھے گی۔ بہرحال اسرائیل کی جانب سے فی الوقت جارحیت رک چکی ہے مگر جنگی ذہنیت کا حامل اسرائیل کسی بھی وقت فلسطین کے مظلوم عوام پر دھاوابول سکتا ہے اور بڑے پیمانے پر حملے کرکے مزید علاقے قبضہ کرنے کی سوچ رکھتا ہے
اسرائیل کی اس ڈھٹائی کی بڑی وجہ وہ بڑی طاقتیں ہیں جو آج بھی اسرائیل کو ہر لحاظ سے سپورٹ کررہی ہیں جن میں امریکہ سمیت دیگر بڑے ممالک شامل ہیں اور اقوام متحدہ اور سیکیورٹی کونسل کی ساکھ کو نقصان پہنچانے میں بھی انہی ممالک کا کردار ہے کیونکہ یہی ممالک اقوام متحدہ کے اندر بڑے پیمانے پر اکثریت رکھتے ہیں جو کسی صورت فلسطین کے حق میں بل کی حمایت نہیں کرتے بلکہ اب بھی انہی ممالک کی جانب سے اسرائیل کو اسلحہ سمیت دیگر سازوسامان کے علاوہ جارحیت کے حوالے سے حمایت کی جارہی ہے کسی نے کھل کر حالیہ فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کی مذمت نہیں کی محض دبے لفظوں میں انسانی حقوق کی پامالی پر بے اثر بیانات دیتے ہوئے اسی کے اندر اسرائیل کی حمایت کرتے دکھائی دیے۔
امن کے داعی عالمی طاقتیں ہر وقت مسلم ممالک پر اپنا اثرونفوذ برقرار رکھنے کیلئے ان کے وسائل پر نہ صرف قبضہ کرتے ہیں بلکہ وہاں کی حکومتوں کے تخت تاراج کئے جاتے ہیں جس کی تاریخ میں واضح مثالیں ملتی ہیں۔ شام، عراق، افغانستان جیسے ممالک ہمارے سامنے ہیں کہ کس طرح سے عالمی طاقتوں نے اس خطے پر اپنا راج برقرار رکھنے کیلئے امن کی آڑ میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں کا نا حق خون بہایا،مجال ہے کہ ان عالمی طاقتوں کے اتحادیوں نے ایک دوسرے کی اس جنگی جنونی پالیسی کی حمایت ترک کی ہو۔
مگر سوال بنیادی طور پر یہ اٹھتا ہے کہ اس تمام تر صورتحال میں مسلم ممالک کے اندر کتنا اتفاق واتحاد موجود ہے جس کا جواب نفی میں آئے گا ہر ملک اپنے خوف اورڈر کی وجہ سے عالمی طاقتوں کی پالیسیوں کے سامنے جھک کر سخت گیر مؤقف اپنانے سے گریزاں ہے۔ او آئی سی جیسی بڑی تنظیم نے اب تک کونسا بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے جس کی کوئی ایک مثال دی جاسکے جب تک مسلم ممالک ایک پیج پر رہتے ہوئے اتحادکومضبوط نہیں کریں گے ان کو اسی طرح نشانہ بنایا جاتا رہے گا اور عالمی طاقتیں اپنے مفادات حاصل کرتے رہینگے۔ اس لئے مغرب سمیت کسی سے گلے شکوے کی بجائے مسلم ممالک اپنی کوتاہیوں پر غور کریں اور جب تک انہیں دور نہیں کرتے، مسلم ممالک کے نام پر بننے والی تنظیم کو کوئی اہمیت نہیں دے گا کیونکہ طاقت اور اتحاد کی ہی اہمیت کو تسلیم کرنے کے ساتھ ان کی بات کو ماناجاتا ہے۔