افغانستان میں امن و امان کا مسئلہ اپنی جگہ ابھی تک برقرار ہے جس کی بڑی وجہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں غیر سنجیدگی ہے اور اس کی ذمہ داری امریکہ پر عائدہوتی ہے جس نے افغان حکومت کو مکمل بے اثر کرکے رکھ دیا ہے ۔ افغانستان میں قیام امن کیلئے صرف دو ہی فریقین مذاکرات کرتے آرہے ہیں جن میںطالبان اور امریکہ شامل ہیں جبکہ افغان حکومت کا کوئی خاص کردار اب تک نظر نہیں آرہا ۔دوسری جانب بین الافغان مذاکرات میں بھی کوئی خاص پیشرفت نہیں ہورہی جو دوحہ میں ہونے والے امن معاہدے کا حصہ ہے ،یہ معاملہ افغانستان میں قیام امن کیلئے انتہائی غیرمعمولی ثابت ہوگا کیونکہ خطرہ ہے کہ دوبارہ مختلف گروپس منظم ہونگے جبکہ شمالی اتحاد بھی مسلح ہونے میںتاخیر نہیں کرے گی۔
اس صورتحال کے پیش نظر اطلاعات آرہی ہیں کہ امریکہ واتحادی افواج کے انخلاء کے باعث افغان حکومت میں شامل بعض اہم عہدیداران ملک چھوڑنے کے حوالے سے سوچ رہے ہیں کیونکہ یہ خدشہ ظاہرکیاجارہا ہے کہ عالمی افواج کی افغانستان سے انخلاء کے بعد ان کی جان کو خطرات لاحق ہونگے اس لئے وہ پیشگی افغانستان چھوڑنے کی منصوبہ بندی اپنے اہلخانہ کے ساتھ کررہے ہیں۔ پہلے یہ باتیں افغان امور پر گرفت رکھنے والے ماہرین اپنے تجزیوں میںکرتے آرہے تھے کہ طالبان پہلے سے زیادہ طاقتور ہوچکے ہیں اور دیگر گروپس بھی صف بندی پر لگ چکے ہیں جس سے خانہ جنگی کے خطرات مزید بڑھ سکتے ہیں جوکہ خطے کیلئے بھیانک ثابت ہونگے۔
گزشتہ روز برطانوی حکومت کی جانب سے ایک بیان سامنے آنے کے بعد یہ واضح ہوچکا ہے کہ افغانستان میںامریکہ اور اس کے اتحادی افواج کی واپسی کے بعد حالات خراب ہوسکتے ہیں۔ برطانوی حکومت کی جانب سے جاری بیان کے مطابق افغانستان میں برطانوی فوج اور حکومت کے لئے کام کرنے والے سینکڑوں افغان باشندوں کو اہلخانہ سمیت برطانیہ میں رہائش دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔یہ اسکیم افغان ریلویکشن اینڈ اسسٹنس پالیسی یکم اپریل کو تشکیل دی گئی تھی۔جن کو رہائش دی جائے گی ان میں زیادہ تر ترجمان ہوں گے اور توقع ہے کہ سب کے اہلخانہ سمیت کل تعداد3ہزار سے زیادہ ہوگی جبکہ اس سے قبل13 سو باشندوں کو رہائش دی گئی تھی۔برطانیہ کے سکریٹری دفاع بین والیس کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ان لوگوں کی حفاظت کیلئے کیا گیا ہے کیونکہ بین الاقوامی فوجیں ملک چھوڑنے کی تیاری کر رہی ہیں۔جنہیں افغانستان سے منتقل کیا جا رہا ہے ان کو غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد طالبان سے خطرہ ہو سکتا ہے۔اس سے قبل سخت شرائط رکھی گئی تھیں اور زیادہ اہم کردار ادا کرنے والوں کو برطانیہ میں رہائش دی جاتی تھی۔
لیکن نئی حکومت کی پالیسی کے تحت کسی بھی موجودہ یا سابقہ ملازم جس کی جان کو خطرہ ہو ،برطانیہ روانہ کیا جائے گا۔حکومت نے کہا کہ یہ اس حقیقت کی عکاسی کرنے کے لئے کیا گیا ہے کہ افغانستان میں سیکیورٹی کی صورتحال تبدیل ہوگئی ہے اور انہوں نے پچھلے 20 سالوں میں برطانیہ کی حکومت اور فوج کے لئے کام کرنے والے مقامی عملے کے لئے ممکنہ خطرے کو تسلیم کیا ہے۔بہرحال اس صورتحال کو بھانپتے ہوئے پاکستان، روس، چین اور ایران کو کلیدی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ افغانستان میں دوبارہ شورش کا آغاز نہ ہوجائے کیونکہ اس بدامنی سے پورا ریجن ایک بہت بڑے خطرے سے دوچار ہوجائے گا اس لئے افغانستان کے معاملے کو ابھی سے سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے وگرنہ تاخیر ایک نئے بحران کو جنم دے سکتا ہے جس کا متحمل خطہ نہیں ہوسکتا۔