|

وقتِ اشاعت :   June 4 – 2021

ملک میں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا مسئلہ دہائیوں سے چلتا آرہا ہے مگر مستقل بنیادوں پر کسی بھی حکومت نے اسے حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ہر بار یہ بڑا تنازعہ بن کر سامنے آتا ہے اور صوبے ایک دوسرے پر پانی چوری کا الزام لگاتے ہیں اس صورتحال سے واضح ہوجاتا ہے کہ ہمارے یہاں کوئی مستقل پالیسی پانی کی تقسیم کے حوالے سے موجود نہیں اگر کوئی میکنزم ہوتا تو یہ تنازعہ ہر بار سر نہیں اٹھاتا۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ بات سننے کو مل رہی ہے کہ پانی کی تقسیم کو منصفانہ بنانے کے ساتھ ساتھ اس بحران کے خاتمے کیلئے بڑے ڈیمز تعمیر کئے جائینگے تاکہ ملک سے آبی قلت کا کا خاتمہ ہوجائے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور پانی کے بغیر یقینا زراعت کا شعبہ ترقی نہیں کرسکتا اور موجودہ صورتحال کا جائزہ لیاجائے تو پانی کی تقسیم اور بحران نے زراعت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

گزشتہ کچھ دنوں سے سندھ اور پنجاب کے درمیان پانی کا تنازعہ شدت اختیار کرگیا ہے جس کا وزیراعظم عمران خان نے نوٹس لیتے ہوئے اسے حل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ دوسری جانب وزیر مملکت اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے کہا ہے کہ وزیراعظم تمام صوبوں کو پانی کے معاملے پر ساتھ لیکر چلنا چاہتے ہیں، تمام صوبوں کو سہولت فراہم کرنے کو تیار ہیں۔گزشتہ روزاسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے فرخ حبیب کا کہنا تھا کہ بے شمار ڈیم بننے چاہیے تھے لیکن ماضی کی حکومتوں نے نہیں بنائے،وزیراعظم نے اس دھائی کو ڈیمز بنانے کی دہائی قرار دیا ہے،ان دس سالوں میں 13 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کریں گے۔

عمران خان تمام کسانوں کا سوچتے ہیں،اپوزیشن ایسا تاثر پیش نہ کرے جس سے ملک کو نقصان ہو، ڈیموں کی تعمیر سے تمام صوبوں کو فائدہ ہوگا۔ وزیر آب پاشی پنجاب محسن لغاری کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت کسی بھی کسان کا حق مارنے کا سوچ بھی نہیں سکتی، پانی کی تقسیم 10، 10 دنوں میں ہوتی ہے، اپریل میں پنجاب میں پانی کی قلت45 فیصد تھی اور سندھ میں 9 فیصد تھی،فی الوقت پنجاب کو 22 فیصد اور سندھ کو 17فیصد پانی کی کمی ہے۔پنجاب میں 2 فیصد پانی کوہ سلیمان سے شامل ہو کر بڑھا ہے، ارسا نے فیصلہ کیا ہے کہ آزادانہ مانیٹر پانی کے حوالے سے لگائے جائیں گے، اس کے لیے ارسا نے وزارت آبی وسائل کو خط بھی لکھ دیا ہے۔

دوسری جانب بلوچستان حکومت نے ایک مرتبہ پھر سندھ کوبلوچستان کو پانی کی فراہمی کے حوالے سے نامناسب رویہ اختیارکرنے پر شدیدتنقیدکانشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان کو پٹ فیڈر کینال سے 7600 کیوسک پانی ملنا چاہیے مگر سندھ کی جانب سے تقریباً 6 ہزار کیوسک پانی مل رہا تھا اسی طرح کیر تھر کینال سے 2400 کیوسک کے بجائے 1800 کیوسک پانی مل رہا تھا، پچھلے 10 روز میں سندھ کی جانب سے ان دونوں نہروں میں 55 فیصد پانی کم دیا جارہا ہے۔ترجمان حکومت بلوچستان لیاقت شاہوانی کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں سندھ سے ملحق بلوچستان کے زرعی علاقوں میں 76 ہزار ایکڑ پر لگی فصلیں تباہ ہونیکا خطرہ ہے۔

بلوچستان حکومت نے سندھ کی جانب سے پانی چوری کا معاملہ سندھ حکومت سے اور مشترکہ مفادات کونسل میں اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔بہرحال ملک کے اندر جب تک پانی تقسیم سمیت صوبوں میں بڑے ڈیمز کی تعمیراور زیر تعمیر ڈیمز کی تکمیل کامسئلہ حل نہیں ہوگا یہ تنازعہ اسی طرح برقرار رہے گا۔اس لئے ضروری ہے کہ ملک میں ڈیمز کی تعمیر پر زیادہ توجہ مرکوز کی جائے اور موجودہ صورتحال میں جو پانی دستیاب ہے اس کی تقسیم منصفانہ انداز میں کی جائے تو کسی حد تک صوبوں کے درمیان پانی کاتنازعہ حل ہوجائے گا مگر مستقل بنیادوں پر آبی مسائل کو حل کرنے کیلئے پالیسی مرتب کرنا ضروری ہے تاکہ پاکستان میں زراعت کے شعبہ میں بہتری آسکے۔