|

وقتِ اشاعت :   June 7 – 2021

نال : بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نال زون کی جانب سے ایک سیمینار منعقد کیا گیا۔ جس میں کیریئر کاونسلنگ، کتاب کی اہمیت، تعلیم کی اہمیت، نال میں تعلیم کے مسائل، گرلز ایجوکیشن کی اہمیت، جیسے مضامین زیر بحث رہے اور ساتھ ہی ساتھ میں بلوچستان کتاب کاروان کے نام سے ایک بک اسٹال کا بھی انعقاد کیا گیا

جس میں طلباءنے کثیر تعداد میں شرکت کرکے مقررین کے علمی خیالات سے مستفید ہوئے۔سیمینار میں بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی وائس چیئرپرسن شبیر بلوچ ، مرکزی انفارمیشن سیکرٹری عارف بلوچ ، مرکزی کمیٹی کے ممبر ڈاکٹر سمعیہ بلوچ، بطور مہمان خاص ہیڈماسٹر گورنمنٹ بوائز ہائی سکول مروکی محمد یعقوب صاحب، ڈائریکٹر قندیل سکول سسٹم خلیل احمد بلوچ کاروان علم و حق کے چیئرمین اسد نور بزنجو ایگریکلچر آفیسر عظیم صاحب و دیگر معززین نے شرکت کی۔سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی وائس چیئرمین شبیر بلوچ نے بلوچ سیاست میں طلباءکی تاریخی کردار اور اہمیت پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قوموں کی ترقی میں طلباءکا فعال کردار رہاہے کیونکہ طلباءہی وہ محترک طبقہ ہیں جو ہمہ وقت تحقیق و تخلیق کی جستجو میں قوموں کی ترقی میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کرتا آرہا ہے۔اگر دنیا کی چند ترقی یافتہ ریاستوں پر طائرانہ نظر دورائیں تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہیں کہ ان ریاستوں میں طلباءنے غیر ضروری عوامل کی بیخ بینی کرتے ہوئے

قومی خدمت کو اپنے شعار بنایا ہیں ا اسی طرح بلوچ قومی سیاست میں بلوچ طلباءکی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں۔ بلوچ طلباءتنظیموں نے اپنے قیام سے ہی سے مختلف مشکل و مصائب کا سامنا کرتے ہوئے طلباءکی مسائل کے حل کے لئے ہر اول دستے کا کردار کیا ہے جو تاہنوز جاری ہیں۔یہ ایک حقیقیت ہے کہ بلوچ سیاست کو سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے کے ساتھ ساتھ اسے ایک نئی شکل دینا بلوچ طلباءکی دین ہے۔ گذشتہ چندعرصے کے تعلیمی مسائل کو دیکھا جائے تو مختلف الائنس قائم کرکے اجتماعی طور پر اپنی تعلیمی مقاصد حاصل کیے ہیں ان میں آن لائن کلاسز کے کلاسز سمیت مختلف مہم شامل ہیں۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے شبیر بلوچ نے بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے اغراض مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی تنظیم یا پارٹی کا آئین بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ تنظیمی آئین ہی تنظیم کی بنیادی مقام کا تعین کرتی ہیں۔ تنظیم کے آئین کو مطالعہ کرنے کے بعد یہ اہم پہلو سامنے آتاہے کہ تنظیم بلوچ نیشنلزم کی بنیاد پر تعلیمی مسائل کو حل کرنے میں ہمہ وقت کوشاں رہے گی

اور بلوچ طلباءکو درپیش چیلنچز کا سامنا کرنے کے لئے طلباءکی ذہنی تربیت کرے گی۔ تنظیم نے اپنے آئینی مقاصد کے تحت بلوچ طلباءکی ہمہ وقت مسائل میں ہر اول دستہ کا اہم کردار ادا کیا ۔ بلوچ طلباءسیاست پر چھائے تضادات کو حل کرنے میں تنظیم نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان میں سرفہرست بلوچ و براہوی تضاد تھا جہاں بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ کے مطابق بلوچ و براہوی کو دو مختلف قومیں ظاہر کرکے دانستہ طور پر تضاد کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی مگر تنظیمی پالیسیوں کی تحت بروقت بیشتر شہروں میں احتجاجی مظاہرے منعقد کرکے ان ہھتکنڈوں کو ناکام بنایاگیا۔ اس تضادات کے علاوہ بلوچستان یونیورسٹی ویڈیو اسکینڈل جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا جہاں خفیہ مقامات پر کیمرے لگاکر طلبہ کو ہراساں کیا گیا ان سمیت ان گنت مسائل پر تنظیم نے اپنے محکم پالیسیوں کے تحت تعلیم دشمن عناصر کے خلاف اپنے مستحکم پالیسیوں کو واضح کیے ہیں۔بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی انفارمیشن سیکرٹری عارف بلوچ نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تنظیمی اراکین کا اولین فرض کتابوں سے ج±ڑے رہ کر خود کی تربیت ہے کیونکہ علمی، فکری اور شعوری حوالے سے پختہ سیاسی کارکنان ہی تنظیمی مضبوطی کا ضامن ہے،

آج کارکنان کی سب سے اہم ذمہ داری خود کی تربیت اور دیگر طالبعلموں کی تربیت ہے جس کےلئے واحد راستہ کتب بینی ہے کیونکہ کتب بینی ہی ایک انسان کو فکری حوالے سے پختہ کرتے ہوئے ایک منظم جدوجہد کا داعی بنا دیتا ہے۔ کتابیں خود شناسی کا نام ہیں کیونکہ کتابیں ایک انسان کو خود کی پہچان دیتی ہیں۔ تعلیم کی اہمیت پر مرکزی کمیٹی کے رکن ڈاکٹر سمیعہ بلوچ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ طلباء کے تعلیمی مسائل کے حل و جمہوری حقوق کے حصول کے لئے جدوجہد ہمارا نصب العین ہے۔اگر ہم بلوچ علاقوں کے تعلیمی صورتحال کا جائزہ لیں تو اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہتا کہ گزرتے وقت کے ساتھ بلوچ علاقوں میں تعلیمی مسائل سنگین ہوتے جارہے ہیں۔ جہاں ایک طرف بلوچستان میں اسکول سطح کی تعلیمی ڈھانچہ مکمل ناکامی کا شکار ہے تو دوسری طرف کالج اور اعلی سطح پر سہولیات کی عدم فراہمی و اساتذہ کے کمی کی وجہ سے حصول تعلیم ناممکن ہو چکی ہے۔انہوں نے کہا کہ تعلیم یافتہ بلوچستان ہمارا خواب ہے۔جس کی تعبیر بغیر منظم جہد و جہد کے ممکن نہیں، تنظیم کے تمام ممبران کی یک مشت ہوئے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔ہمیں عالاقائی سطح پر تعلیم کی اہمیت اجاگر کرنے سمیت تعلیمی مسائل کے حل کے لیے منظم جہد و جہد کرنے کی ضرورت ہے۔بلوچ اکثریت علاقوں میں تعلیمی زبوں حالی کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ عہد کے طالبعلموں کےلئے اپنی ذمہ داریوں کا ادراک نہایت ہی ضروری ہے۔ جہاں ایک جانب طالبعلموں کا خود کے علمی صلاحیتوں کو نکھارناایک ضروری امر بن چکا ہے وہیں تسلسل کے ساتھ سماج میں علمی رجحان کے پروان کےلئے منظم اور اجتماعی کوششیں قومی ذمہ داری کے طور پر گردانا جاتا ہے۔