ایف ایس او راڈینٹ نامی بحری جہازکامعمہ اب تک حل نہیں ہوسکا ہے محکمہ ماحولیات کی متضاد رپورٹ نے بہت سارے سوالات کھڑے کردیئے ہیں، سب سے پہلے اس انڈونیشین جہاز کا ذکر انتہائی ضروری ہے کہ کن ممالک سے ہوتا ہوا یہ جہاز بلوچستان کے سمندری علاقے گڈانی شپ بریکنگ یارڈ تک پہنچا اور کیونکر دیگر ممالک نے اس جہاز کو اپنے ساحل پرلنگر انداز ہونے کی اجازت نہیں دی۔ مال بردار جہاز کی لمبائی229میٹر ہے یہ انڈونیشیاء کے ایک نجی کمپنی کی ملکیت تھی، اسکی عمر 38سال بتائی جاتی ہے اس جہاز کے مالک نے ا ربوں روپے کا منافع کمانے کے بعد اسے بنگلہ دیش کے ایک نجی شپ بریکر یارڈ کمپنی کو فروخت کردیا،جہاز جب بنگلہ دیش کے ساحل پر پہنچاتو انٹر پول اور عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے بنگلہ دیش کی حکومت کو اطلاع دی گئی کہ اسکے توڑنے سے ماحولیات میں تباہی مچ جائے گی۔
جس سے بڑے پیمانے پر جانی نقصانات ہونگے جس کے بعد بنگلہ دیش کی حکومت کی جانب سے جہاز کو لنگر اندازہونے سے روک دیاجاتا ہے جس کے بعد یہ جہاز 6ماہ بعد2020ء میں نومبر کے مہینے میں بھارت کے سب سے بڑے شہر ممبئی کے ساحل کے قریب پہنچتا ہے اسی دوران انٹر پول کی جانب سے بھارتی حکومت کو بھی اس جہاز کے خطرات سے آگاہ کیاجاتا ہے جس کے بعد بھارتی حکومت بھی جہاز کو لنگر اندازہونے کی اجازت نہیں دیتا۔ جہاز کے مالک کا تعلق بنگلہ دیشی کمپنی سے ہے جو اس جہاز کو فروخت کرنے کیلئے باقاعدہ بولی کا اہتمام کرتا ہے اور پاکستان کی ایک نجی کمپنی اس جہاز کی بولی لگاکر اسے خرید لیتا ہے اور بڑی ہوشیاری کے ساتھ کمپنی اس جہازکانام تبدیل کرکے”چیرش“ رکھ لیتا ہے مگر عالمی ادارہ ماحولیات اور انٹرپول کی مکمل توجہ اس جہاز پر لگی رہتی ہے شاید کمپنی کے مالک کو اس بات کا ادراک نہیں تھا۔ بہرحال عالمی ادارہ ماحولیات اور انٹرپول کی جانب سے ایف آئی اے اور متعلقہ اداروں کواس جہاز کے حوالے سے آگاہ کیاجاتا ہے۔
کراچی کے ساحل پر پہنچنے کے بعد جہاز کی اگلی منزل گڈانی شپ بریکنگ یارڈ ہوتی ہے اور اس کے بعد میڈیا پر اس جہاز کے متعلق مکمل معلومات فراہم کی جاتی ہیں اور حکومت بلوچستان کی جانب سے جہازمیں زہریلی مواد کا کھوج لگانے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے،محکمہ ماحولیا ت کے ڈائریکٹر ٹیکنیکل انجینئرمحمد خان اتمانخیل کی سر براہی میں قائم تحقیقاتی کمیٹی کے ارکان گڈانی شپ بریکنگ یارڈ کے پلاٹ نمبر 60 پر لنگر انداز بحری جہاز کا معائنہ کرتے ہیں۔محکمہ ماحولیات کی تحقیقاتی ٹیم چند روز کے بعد جہاز کو کلیئر قراردیتی ہے۔ رپورٹ میں بتایاجاتا ہے کہ جہاز کے ٹینکوں میں مرکری کا سلج یاکسی قسم کا زہریلی مواد موجود نہیں اور یہ بات میڈیا کے سامنے کی جاتی ہے کہ ہماری ٹیم نے تمام ٹینکوں کا مکمل معائنہ کرلیا ہے۔
جہاز کے ٹینکوں میں کسی قسم کا سلج یا دوسرا مواد موجود ہی نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ جہاز پر ایک سو کے قریب ڈرم موجو د ہیں جن میں موجود موادکے سیمپل حاصل کر لیے گئے ہیں ان ڈرموں میں کیا ہے یہ رپورٹ کے بعد پتہ چلے گا۔ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ ماحولیات کوئٹہ عبدالولی خلجی کا کہنا تھا کہ ٹینک کا جب معائنہ کیا گیا تو دیکھا گیا کہ ٹینک خشک اور زنگ آلود ہیں جس سے ایسا نہیں لگ رہا کہ یہ ٹینک یہاں صاف کیے گئے ہیں۔ مزید تحقیقا ت کر رہے ہیں تاہم بحری جہاز کے ٹینکوں میں کچھ بھی نہیں وہ مکمل طور پر خشک اور زنگ آلود ہیں، ان کے مطابق بحری جہاز میں خطر ناک مواد سے متعلق میڈیا میں چلنے والی خبروں میں کوئی صداقت نہیں اسے محض پروپیگنڈہ ہی کہا جا سکتا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عالمی ادارہ ماحولیات اور انٹرپول جو مختلف ممالک کو اس جہاز کے متعلق معلومات فراہم کررہے تھے وہ سب جھوٹ پر مبنی ہے اور پھر ان ممالک نے کیونکر ان دواداروں پر اعتبار کرتے ہوئے جہاز کو اپنے سمندری حدود میں لنگرانداز ہونے کی اجازت نہیں دی۔
اس کا مطلب واضح ہے کہ ہمارے یہاں رپورٹ میں بڑے جول ہیں اور یہ بھی اطلاعات ہیں کہ جن محکموں نے تحقیقات میں حصہ لیا ہے کمپنی مالک کی جانب سے انہیں بڑے پیمانے پر رقم سمیت مراعات دی گئی ہیں۔اگر یہ بات وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان سمیت ان کی ٹیم کے علم میں نہیں تو لہٰذا ذمہ داری کامظاہرہ کرتے ہوئے دوبارہ تحقیقات کا حکم دیں کیونکہ بعد میں اگر اس کے انتہائی بھیانک نتائج انسانی جانوں کے ضیاع کے طور پر سامنے آئے تو یہ بہت بڑا مسئلہ بن جائے گا۔اس لئے ضروری ہے کہ جو رپورٹ پیش کی گئی ہے اس میں شکوک وشہبات بہت زیادہ ہیں ازسرنو اس کی تحقیقات کی جائے تاکہ اصل حقائق سامنے آسکیں اور کرپشن کرنے والے انسانی جانوں کے سوداگروں کیخلاف سخت کارروائی عمل میں لاتے ہوئے مثال قائم کی جائے۔