کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات ورکن قومی اسمبلی آغا حسن بلوچ نے شہید صحافی عبدالواحد رئیسانی اور فیضان جتک قتل کیس میں تحقیقات نہ ہونے پر قومی اسمبلی کے اجلاس میں احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی منفی روش کیخلاف سیاسی جماعتیں آواز بلند کریں ۔ انہوں نے ٹکری بہادر علی کھیازئی اور پارٹی رہنماء ڈاکٹر علی احمد قمبرانی کے کزن کے لاپتہ کئے جانے پر بھی شدید احتجاج کیا ۔
منگل کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں رکن قومی اسمبلی آغا حسن بلوچ نے نکتہ اعتراض پر ایوان کی توجہ شہید صحافی عبدالواحد رئیسانی اور شہید فیضان جتک کے قتل کی جانب مبذوال کراتے ہوئے کہا کہ رمضان کے دوران کوئٹہ شہر کے وسط میں ہمارے ایک نوجوان صحافی عبدالواحد رئیسانی کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بناکر انہیں شہید کیا مگر اس حوالے سے کوئی تحقیقات نہیں ہورہی ہے۔
جبکہ کوئٹہ ہی میں رمضان المبارک کے دوران ایگل اسکواڈ کے اہلکاروں نے فیضان جتک نامی نوجوان کو اس وقت ماورائے آئین شہید کیا گیا جب و ہ اپنے کزن کیساتھ گھر جارہا تھا تاہم واقعہ کی تحقیقات میں اب تک کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ بی این پی کے قائد سردار اختر جان مینگل نے ہمیشہ لاپتہ افراد کے حوالے سے قومی اسمبلی میں آواز بلند کی ہے اگر بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد بازیاب ہوتے ہیںتو یقینا صوبے کے بحرانی حالات میں کافی حدتک بہتری آئیگی مگر افسوس آج بھی کوئٹہ میں لاپتہ افراد کے اہلخانہ اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے احتجاج کررہے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ اور سابق حکومتوں کے ارباب واختیار کی ذمہ داری ہے کہ وہ لاپتہ افراد کو بازیاب کراتے ہوئے ماضی کی پالیسیوں میں تبدیلی لائیں ۔ آغا حسن بلوچ نے وڈھ میں ہندو تاجر کے دن دیہاڑے قتل ، پارٹی رہنماء ٹکری بہادر کھیازئی اور پارٹی رہنماء علی احمد قمبرانی کے کزن کے اغواء کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسی روش کیخلاف تمام سیاسی جماعتوں کو آواز اٹھانی چائیے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم کینیڈا کے دلخراش واقعہ کی مذمت کرتے ہیں مگر جب کریمہ بلوچ کوکینیڈامیں قتل کیا گیا حکومت اس واقعہ کی تحقیقات کراتی تو آج یہ واقعہ پیش نہیں آتا ۔