خضدار کے تحصیل وڈھ میں31مئی کو سرعام بازار میں ایک ہندو تاجر کے بھانجے اشوک کمار کو نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے قتل کردیا جس کے بعد یہ باتیں سامنے آئیں کہ یہ واقعہ بھتہ نہ دینے کی وجہ سے پیش آیا ہے۔ اسی طرح 9ماہ قبل ایک ہندو تاجر کو بھی وڈھ کے بازار میں قتل کیا گیا تھا مگر اصل محرکات کیا ہیں ۔
یہ اب تک سامنے نہیں آیا کہ بھتہ خوری محض اس کی وجہ ہے یا پھر چند عناصر بلوچستان میں شدت پسندی کو ہوا دینے کیلئے ایک مخصوص کمیونٹی کو ہدف بناکر ماحول کو خراب کرنے کے درپہ ہیں اور بلوچستان کے معاشرہ کو شدت پسندی اور انتہاء پسندی کی جانب دھکیلنا چاہتے ہیں۔ان خدشات کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا کیونکہ گزشتہ روز ایک پمفلٹ وڈھ بازار کے بڑے سائن بورڈ پر چسپاں کرنے سمیت تاجروں کی دکانوں میں نامعلوم افراد کی جانب سے پھینکا گیا جس کے متن میں کہاگیا ہے کہ تاجر خواتین کو اپنی دکانوں میں آنے سے روکیں اور خاص کر ہندو تاجر خواتین کو دکان کا رخ کرنے سے منع کریں وگرنہ اس کے سنگین نتائج برآمد ہونگے جس کے ذمہ دار وہ خود ہونگے اور اسی پمفلٹ میں شہریوں کو بھی تنبیہ کی گئی ہے۔
کہ وہ اپنی خواتین کو غیر ضروری طور پر گھر سے باہر جانے کی اجازت نہ دیں۔پمفلٹ میں کسی تنظیم کا نام تو درج نہیں البتہ پمفلٹ کے آخری حصہ میں کارروان سیف اللہ اور ایک تلوار کا نشان بنایاگیا ہے اب یہ کوئی گروپ ہے یا فرضی نام سے ایک تنظیم تشکیل دی گئی ہے فی الحال کچھ نہیں کہاجاسکتا جب تک شفاف تحقیقات نہیں ہوتیں اور سیکیورٹی ادارے پورے معاملہ کی مکمل چھان بین کرکے ایک جامع رپورٹ سامنے نہیں لاتے۔ البتہ صوبائی وزیر داخلہ میرضیاء لانگو نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس اس حوالے سے منعقدکرچکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ہندو تاجر کے قتل کی تحقیقات جاری ہیں مگر فی الوقت کوئی بھی بات میڈیا کے ساتھ شیئر نہیں کی جاسکتی مگر یہ ضروری یقین دہانی کراتے ہیں کہ جلد ہی ان ملزمان تک پہنچ کر انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا ۔
امید ہے کہ وزیرداخلہ سیکیورٹی اداروں کو اس حوالے سے مزید احکامات جاری کرینگے تاکہ ہندو تاجروں کے قتل کے اصل محرکات سامنے آنے کے ساتھ ساتھ وڈھ میں جوپمفلٹ تقسیم کیا گیا ہے اس کے حقائق بھی سامنے آسکیں تاکہ جو خوف اس وقت وڈھ میں پھیلایاجارہا ہے اس سے عوام باہر آسکیں۔ دوسری جانب حکومت، اپوزیشن، سیاسی وسماجی حلقوں سمیت قبائلی عمائدین کی اس وقت بڑی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس پمفلٹ کی تقسیم کے معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں کیونکہ یہ بلوچستان کیلئے مستقبل میں انتہائی خطرناک حالات کا سبب بن سکتا ہے ماضی ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح سے خواتین کیلئے تعلیمی اداروں کے دروازے بند کرنے کیلئے نہ صرف ٹیچرز کو نشانہ بنایاگیا۔
بلکہ تعلیمی اداروں کو بھی تالہ لگایاگیا تاکہ بلوچستان کی خواتین تعلیم جیسے زیور سے محروم رہیں اور ایک انتہاء پسندانہ ماحول کے ذریعے بلوچستان کے خوبصورت معاشرے اور کلچر کو انتہاء پسندی اور شدت پسندی کے ذریعے داغ دار کیاجائے۔ یقینا یہ عناصر بلوچستان کے دشمن ہیں اور نہیں چاہتے کہ یہاں کے عوام امن اور سکون سے اپنی زندگی گزاریں۔ اس لئے یہ نہ صرف وڈھ کے اندر ہندو تاجر کے قتل اور خواتین کے متعلق پمفلٹ کا معاملہ ہے بلکہ یہ انتہاء پسندی پورے بلوچستان کو مستقبل میں اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے جس کے نتائج انتہائی بھیانک نکلیں گے اور اس کا متحمل ہمارامعاشرہ اور سماج نہیں ہوسکتا۔ امید ہے کہ اس انتہاء پسندی کو روکنے کیلئے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد انفرادی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس حوالے سے اپنا مثبت کردار ادا کریںتاکہ بلوچستان کا معاشرتی ڈھانچہ بری طرح متاثر نہ ہو۔