بلوچستان میں حکومتی ٹریک ریکارڈ ہمیشہ خراب رہا ہے خاص کر کرپشن کے حوالے سے بلوچستان کی حکومتوں کو شدید تنقید کاسامنا کرناپڑا ہے خاص کر پرویزمشرف دور سے بلوچستان میں جس طرح سے حکومتیں بنائی گئیں اور سیاسی جماعتیں معرض وجود میں آئیں انہوں نے یہاں کے سیاسی کلچر کو بہت زیادہ متاثر کیا۔ مرکز میں بننے والی حکومتوں کو کبھی بھی صوبے میں حکومت بنانے میں کوئی دقت نہیں رہی
کیونکہ یہاں ایک بڑی تعداد اراکین اسمبلی کی خواہش یہی رہی ہے کہ وہ حکومت کا حصہ بنیں اور اہم وزارتوں کے ذریعے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔اگر اب بھی وزارتوں کی لسٹ نکالی جائے تو شاید موجودہ سیٹ اپ میں بھی ایسے نام سامنے آئینگے جو عرصہ دراز سے حکومتی بینچوں پر براجمان ہیں گوکہ ان میں چنداہم شخصیات کا اپنے حلقوں میں ذاتی ووٹ بینک ہے اور وہ اپنے حلقوں میں بااثر ہیں پورا قبیلہ ان کے ساتھ ہوتا ہے اس لئے بعض جماعتیں ان شخصیات کے حلقوں میں اپنے امیدوار بھی کھڑے نہیں کرتے اگر ان کے مقابلے کا کوئی اہم قبائلی وسیاسی شخصیت کسی مذہبی وسیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرے تو پھر اسی شخصیت کے ذریعے الیکشن ٹکٹ فراہم کرکے مہم کا بھی ذرا بوجھ اسی پر ڈال دیا جاتا ہے، خود پارٹیاں ذاتی دلچسپیاں نہیں لیتیں کیونکہ سیاسی ومذہبی جماعتوں کو اس بات کا پورا یقین ہوتا ہے کہ ان کی جماعت کے منشور ونظریہ کو دیکھ کر کوئی بھی انہیں ووٹ نہیں دے گا بلکہ شخصی بنیاد پر ہی نشست جیتی جا سکتی ہے۔
بہرحال بلوچستان میں یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے بعض کم ایسے حلقے ہیں جہاں پر شخصی بنیاد کے بغیر انتخاب لڑاجاتا ہے۔اس تمام تذکرہ کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ ان شخصیات سے ان کا وزیراعلیٰ اور سیاسی کارکنان کوئی پوچھ گچھ نہیں کرتے کہ انہوں نے فنڈز اور ترقیاتی اسکیمات کی رقم کہاں خرچ کی اور گزشتہ کئی ادوار سے مختلف جماعتوں میں شامل ہوکر انہوں نے کتنے فوائدحاصل کئے۔ بات یہاں نہیں رکتی بلکہ پورا سیاسی کلچر جب کرپشن کی لپیٹ میں آجاتا ہے تو ہر جماعت حکومت میں رہ کر عوامی حقوق پر ڈاکہ ڈال کر ذاتی وگروہی مفادات حاصل کرنے میں لگ جاتے ہیں اس لئے آج بلوچستان ہر شعبہ میں مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے، بلوچستان شاہراہوں،مواصلاتی نظام، سیوریج، پانی، صحت، تعلیم، روزگار سمیت ہرلحاظ سے ملک کے دیگر صوبوں سے پیچھے ہے
کیونکہ دیگر صوبوں میں سیاسی جماعتوں کا ووٹ بینک زیادہ ہوتا ہے بہ نسبت شخصی ووٹ کے اس لئے وہاں سیاسی جماعتیں اپنے ارکان سے پوچھ گچھ کرتے ہیں اور منتخب نمائندگان کی ترجیح اپنے حلقے کے مسائل کو حل کرنا ہوتا ہے۔ آج بلوچستان کی اپوزیشن جماعتیں غیرمنتخب نمائندگان کو فنڈز کی فراہمی کیخلاف احتجاج کررہی ہیں ان کا مؤقف ہے کہ ان کے حلقوں میں نہ صرف غیرمنتخب نمائندگان کو فنڈز سے نوازاجارہا ہے بلکہ وہ بیجا مداخلت بھی کررہے ہیں۔ کیا ماضی میں یہ اپوزیشن جماعتیں حکومت کا حصہ نہیں رہی ہیں
ان کے پاس وزارتیں نہیں تھیں تب فنڈز اور ترقیاتی اسکیمات کی رقم کہاں خرچ کی گئی، اس کا حساب کتاب دیا جاسکتا ہے یا پھر اتحادی اپوزیشن کی چند ایک جماعتیں اپنے ان دوستوں سے یہ سوال کرسکتے ہیں؟ قطعاََ نہیں۔ یہی سیاسی المیہ بلوچستان کی پسماندگی اور محرومیوں کا بڑا سبب ہے اگر بلوچستان کے سیاسی کلچر کو کرپشن سے نکالنا ہے تو ا س بات کاعہد سیاستدان خود کریں کہ وہ اپنی صفوں میں مفاد پرست اور کرپٹ سیاستدانوں کوجگہ نہیں دینگے اور نہ ہی کسی مصلحت پسندی کا شکار ہوکر خاموش بیٹھیں گے جوکہ ناممکن ہے اس لئے موجودہ حکومت سے لیکر ماضی کی حکومتوں کا ٹریک ریکارڈ واضح ہے کہ ان کیلئے کیا اہم ہے؟