بلوچستان میں 18جون 2021ءکو سیاہ دن کے طور پر یاد رکھاجائے گا۔ اس دن ایک ایسی تاریخ رقم کی گئی کہ جسے بھلایا نہیں جاسکتا کہ کس طرح سے مقدس ایوان کے احاطے اور باہر ہنگامہ برپا کیا گیا جس کا ذمہ دار کسی ایک فریق کو قطعاََ نہیں ٹہرایاجاسکتا بلکہ دونوں اطراف سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا ۔
معاملہ فنڈز اور ترقیاتی اسکیمات کا تھا جسے بات چیت کے ذریعے حل کیاجاسکتا تھا اور اس کیلئے حکومت ایک کمیٹی تشکیل دیکر اپوزیشن کو اپنے ساتھ رابطے میں رکھ سکتی تھی تاکہ کوئی درمیانہ راستہ نکل سکے مگر حکومتی رویہ سے یہ پیغام واضح طور پر گیا کہ حکومت کسی طور بات چیت کرنے کیلئے تیار نہیں اور اپوزیشن کو اپنے ساتھ مزید لیکر چلنے کیلئے کسی طرح بھی سنجیدہ نہیں ہے۔ اس رویہ کے انتہائی منفی اثرات آگے جاکر ایوان کے اندر اور باہربرآمد ہونگے اور اب لگتا یہ ہے کہ معاملات مارپیٹ اور گالم گلوچ سے ہی چلائے جائےں گے۔
بلوچستان کی صدیوں کی روایات کو پامال کیا گیا جس سے ایک ایسا پیغام اب دیگر صوبوں میں جائے گا کہ جس خطے کی ہم قبائلی اور سیاسی کلچر کی مثالیں دیا کرتے تھے اب شاید وہ عظیم شخصیات کے ماننے والے اپنے رہبروں کی درس کو بھول کر ایک نئے ڈگر پر چل پڑے ہیں جس طرح سے دیگر صوبوں میںعموماََ دیکھنے کو ملتا ہے یقینا پنجاب، سندھ اور کے پی کے میں بھی یہ روایات ماضی میں کبھی بھی نہیں رہے ہیں اور نہ ہی قومی اسمبلی کے اندر عظیم شخصیات نے کسی پر ذاتی حملہ کیا ہے چاہے فزیکل یا بدکلامی کے ذریعے ،بالکل ہی نہیں بلکہ انہی سرزمین سے بڑی شخصیات نے جنم لیا اور ایک ایسی مثال قائم کی کہ آج بھی وہ تاریخ کا حصہ ہیں ۔
بہرحال بلوچستان کے سیاسی وقبائلی رہنماءجو اسمبلی میں اس وقت موجود ہیں ان سے یہ توقع کسی کو نہیں تھی کہ وہ اس طرح کا رویہ اپنائینگے کہ اب بلوچستان کے عوام کو ہر جگہ طعنہ سننے کو ملے گا اور یہ سب اس صوبے کے منتخب نمائندگان کی وجہ سے ہے۔ اب وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی جانب سے ایک بار پھر ایسا بیان سامنے آیا ہے جس سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وزیراعلیٰ بلوچستان نے تمام کشتیاں جلادی ہیں اور جس طرح کا رویہ سامنے سے آئے گا اسی طرح کا جواب دیا جائے گا جو کہ مناسب نہیں ہے ۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے اپنے ایک ٹوئٹ پیغام میں کہا کہ مجھ پر حملے سے میں ایک فیصد پریشان نہیں بلکہ تشویش اس بات کی ہے کہ غنڈوں نے بلوچستان اسمبلی کو نقصان پہنچایا اور بے حرمتی کی۔قوم اور مذہب پرست جب اقتدار میں تھے تو چمن،قلعہ عبداللہ اور لورالائی کیلئے کچھ نہ کرسکے لیکن ہم نے بحیثیت اتحادی حکومت بہت کچھ کردکھایا،بلوچستان عوامی بجٹ میں ہیلتھ کارڈ،نئے اضلاع وڈویژنز، آسامیاں،کالجز،25فیصد تنخواہیں اور بہت کچھ شامل ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ جب وزیر اعلیٰ نہیں رہوں گا تب اختر حسین،ثناءبلوچ، نواب اسلم رئیسانی اور احمد نواز اپنا شوق پھر سے آزما لیں۔
میرے لئے یہ پریشان کن اور تشویش کی بات ہے کہ صوبائی اسمبلی کو ان اعلیٰ غنڈوں نے نقصان پہنچایا اور اس کی بے حرمتی کی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان ایک انتہائی معتبر شخصیت کے مالک ہیں انہیں صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہئے اور اس وقت وہ صوبہ کے ایگزیکٹیو ہیں اگر وہ اس طرح کے بیانات دینگے تو دیگر ان کی جماعتوں میںشامل ارکان چار قدم آگے بڑھ کر بیانات داغیںگے نتیجتاً اپوزیشن بھی یہی رویہ اپنائے گی اور اپوزیشن میں شامل ارکان بھی معتبر ہیں۔
اگر وہ بھی اسی سیاسی روش کو اپنی پالیسی کا حصہ بنائینگے تو معذرت کے ساتھ پھر شاید بات نجی معاملات تک پہنچ جائے اور بلوچستان کے سیاسی ورکرز اور عوام پر اس کے انتہائی منفی اثرات پڑینگے لہٰذا صبر وتحمل کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیاجائے ،خدارا اپنی روایات کی پاسداری کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے عظیم رہبروں کی قربانیوں کو ضائع نہ ہونے دیں جنہوں نے اس خطے کی عزت وحرمت کیلئے ہر وقت قربانیاں دیں۔ امید ہے کہ زبان درازی اور منفی سیاسی کلچر کی حوصلہ شکنی کرنے کیلئے دونوں اطراف سے فریقین بیٹھ کر مسائل کا حل نکالیں گے۔