|

وقتِ اشاعت :   June 22 – 2021

کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا کہ ہے بلوچستان اسمبلی کے تقدس کو پامال کرنے پر جمعیت علماء اسلام، پشتونخواء ملی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی کے قائدین معافی مانگنے کی بجائے غزوہ کرنے کی بات کر رہے ہیں اب بھی وقت ہے اپوزیشن جماعتوں کے قائدین یہ تسلیم کریں کہ انکے کارکنوں کی جانب سے غلطی ہوئی اور معذرت کریں، 18جون کو جو روایت ڈالی گئی اس پر ہمارے لوگ اشتعال میں ہیں مگر ہم نے انہیں کسی بھی غیر جمہوری اور غیر پارلیمانی عمل کرنے سے روکے رکھا ہے۔

یہ بات انہوں نے پیر کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہی۔ وزیراعلیٰ جام کمال خان نے کہا کہ پارلیمان صوبے کا مقدس ترین ایوان ہے جہاں ہم عام لوگوں کے لئے قوانین بناتے ہیں اور انکی زندگی میں تبدیلی لاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سابق سینیٹر عثمان خان کاکڑ کی وفات پر دکھ ہوا اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ انکے پسماندگان کو صبر عطا کرے عثمان خان کاکڑ جیسے لوگ اپنی جماعتوں کی روح کی حیثیت رکھتے ہیں انکی وفات سے یقین انکی جماعت میں ایک خلا پید ا ہوا ہے جسے پر کرنا ممکن نہیں ہم سب انکی وفات سے رنجیدہ ہیں انکی وفات سے بلوچستان کو سیاسی نقصان ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ اسمبلی آمد پر گاڑی سے اتر کر اپوزیشن کے ارکان کے پاس گیا اورا ان سے کہا کہ ا س ایوان سے بالاتر کچھ نہیں ہے یہ عمارت ہمارے لئے مقدس ہے۔

انہوں نے کہا کہ عام لوگوں اور مہمانوں کو اس ایوان کا تقدس معلوم نہیں ہے پارلیمانی ممبر کی حیثیت سے ہم نے اس ایوان کے تقدس کی حفاظت کا حلف لیا ہے اگر ہم اس ایوان کا نقصان کریں گے تو ہمیں خود اپنے ورکروں اور مہمانوں سے گلہ نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اس ایوان کاپاکستان اوردنیا میں مذاق بناکر کیا پیغام دیا بلوچستان اور پاکستان میں سیکورٹی خدشات کی وجہ سے ہجوم میں کوئی بھی بدامنی کا واقعہ ہوسکتا تھااور اسمبلی کے باہر لگے شامیانے میں لوگوں کا رش کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کا موجب ہوسکتا تھا اوراگر 18جو ن کو اسمبلی کے اندر کوئی واقعہ ہوتا تواس سے بہت بڑا نقصان ہوسکتا تھا۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے پہلے کسی کو نہیں روکا لیکن جب ہرشخص اپنے ساتھ500افرادکا جتھ لائے گا تو صورتحال گھمبیر ہوتی ہے پچھلے دو بجٹ میں اپوزیشن نے ایوان میں احتجاج کیا کتابیں پھاڑیں ایوان سے نکل گئے لیکن اس سال انہوں نے ہنگامہ آرائی میں ایوان اوراسکی عمارت کو نقصان پہنچایا جو انہیں کرنا زیب نہیں دیتا۔

جام کمال خان نے کہا کہ ہم سب پارلیمان کے رکن ہیں اس ایوان میں ہم سب برابر ہیں ایوان سے باہر ہم سب کی قبائلی،سیاسی حکومتی شخصیات یا حیثیت ہوگی مگراس ایوان کے اندرہم سب بطور رکن کام کرتے ہیں اگرہم اسکے تقدس کو برقرار نہ رکھیں تو ا س سے صوبے کو نقصان ہوگا۔انہوں نے کہا کہ لوگوں نے کہا کہ جوتا اوربوتلیں پھینکی گئیں یہ بلوچستان میں عجیب روایت ڈالی گئی جس سے ہمارے لوگ اشتعال میں ہیں لیکن ہم نے انہیں منع کیا ہے کہ وہ ایسی کوئی حرکت بالکل نہ کریں کل کو اپوزیشن کے قائدین کے ساتھ بھی ایسے واقعات پیش آسکتے ہیں ہم بھی ایسا کرسکتے تھے لیکن ہم ایسا کبھی نہیں کریں گے اوراگر کبھی کسی نے کوئی ایسا کام کیا تواسکی مذمت کریں گے اور اگر ہمارا کوئی شخص ایسی حرکت کریگا تواسکے خلاف کارروائی بھی کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ روایت ڈال دی گئی تو کل کوئی بھی چار لوگوں میں نہیں جاسکتا اس احاطے کے باہر اگر کچھ ہواہوتا تو ہم اسے مختلف انداز سے دیکھتے مگر یہ سب کچھ اسمبلی میں ہواافسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مجھے امید تھی کہ اپوزیشن جماعتوں بی این پی،جمعیت علماء اسلام،پشتونخواملی عوامی پارٹی کے قائدین نہ صرف اس واقعہ کی مذمت کریں گے بلکہ اپنی پارٹی ورکروں کی طرف سے ایوان اور اسپیکر سے معذرت بھی کریں گے کہ انکی جماعتوں کے لوگوں کی جانب سے ایوان کا تقدس پامال ہوا لیکن ایسا نہیں کیا گیا کم از کم اپوزیشن جماعتوں کے قائدین اپنے ورکروں سے پوچھتے کہ انہوں نے ایوان کونقصان کیوں پہنچایاکسی کو مجھ سے یا حکومت کے کسی اورشخص سے اعتراض تھا تو وہ ہم سے باہر بھی بات کرسکتا تھا مگراسمبلی کے احاطے میں جو کچھ ہوا وہ افسوسناک تھا جس کی مذمت کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ چار دن گزر گئے اپوزیشن کے رہنماوں نے مذمت نہیں کی بلکہ انکے لوگ اس معاملے کو مزید شے دے رہے ہیں کہ وہ غزوا کریں گے ان جماعتوں کے قائدین کوبطور پارٹی صدر بیان دیکر معذرت کرنی چاہئے کہ ایوان اور پارلیمان کو نقصان پہنچاہم اپنا احتجاج جاری رکھیں گے مگر ایسا بھی نہیں کیا گیا میں ان سے کہتا ہوں کہ اب بھی وقت ہے کہ انہیں رات تک بھی معذرت کرلینی چاہئے