|

وقتِ اشاعت :   June 26 – 2021

کوئٹہ: وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا ہے کہ اپوزیشن ارکان تھانے میں نہیں جچتے ، اپوزیشن اسمبلی میں آکر اپنے خیالات کا اظہار کرے،بجٹ پیش ہونے سے پہلے اپوزیشن کا بجٹ پر اعتراض غلط تھا،بلوچستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہم نے سب سے زیادہ خرچ کیا،سرداریارمحمد رند سے گلہ نہیں ہے ، میرے لئے قابل احترام ہیں، وہ کبھی ناراض اور کبھی خوش ہو جاتے ہیں ۔

عثمان کاکڑ کی موت کی تحقیقات کیلئے ان کے خاندان کو ہرطرح کی تحقیقات کی پیش کش کی ہے،بلوچستان کے لوگوں،حلقوں اور ترقی کیلئے خزانوں کے دروازے کھول دئیے ہیں۔ بین الاقوامی قوتیں ملک اور بلوچستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں،اسی بناء پر صوبے میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، ویسے بلوچستان میں امن وامان کی مجموعی صورتحال بہتر ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔وزیراعلیٰ جام کمال خان نے کہا کہ حکومت پچھلے دو تین دن سے اپوزیشن سے مذاکرات کی کوشش کررہی ہے ۔

حکومت وفد نے بھی اپوزیشن کے پاس جاکر ان سے بات کی کہ اپوزیشن ارکان تھانے میں نہیں جچتے ، وہ اسمبلی کے اندر آکر بجٹ کا حصہ بنیں مگر ان کا مطالبہ تھا کہ حکومت انہیں یا تو گرفتار کرے یا باہر کرے جو ہمیں سمجھ میں نہیں آرہا۔آج اسپیکر بلوچستان اسمبلی نے مناسب رولنگ دیتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ اگر کیسز واپس ہوتے ہیں یا جو طریقے ہے اس پر ہم آج بات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ آج کچھ مختلف لگ رہا تھا کہ اسمبلی کے اندر کے اندر ہلہ گلہ نہیں ہورہا تھا ہم نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ یہ ہلہ گلہ اسمبلی کے اندر اچھا لگتا ہے اپوزیشن نے اسمبلی کے اندر بینرز بھی لائے مگر ہم نے کبھی اس کا برا نہیں مانا کیوں کہ یہ جمہوریت کا طریقہ کار ہے ۔

اگر آج بجٹ کی منظوری کے وقت اسمبلی کے اندر اپوزیشن ارکان ہوتے تو اچھا لگتا کل کا دن بھی ہے اپوزیشن ارکان سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ بجٹ کا حصہ بنیں۔ انہوں نے کہا کہ جب اپوزیشن نے اسمبلی کے باہر دھرنا دیا تو اس وقت تک ہم نے بجٹ پیش نہیں کیا تھا اعتراضات اس وقت ہوتے جب حکومت بجٹ پیش کرتی بجٹ ٹیبل ہونے سے پہلے اگر کوئی بجٹ پر اعتراضات کررہا ہو تو سمجھ میں نہیں آتی اپوزیشن بجٹ پڑھ کر اعتراض کرتی تو پھر کچھ سمجھ میں آتا مگر اس سے پہلے ایک تحریک چلی تھی اپوزیشن ارکان اسمبلی کے باہر اکر بیٹھ گئے تھے ڈپٹی اسپیکر سردار بابر موسیٰ خیل نے مجھے فون کیا اپوزیشن ارکان یہاں اسمبلی کے باہر آکر بیٹھے ہیں میں نے انہیں کہا کہ وہ اپوزیشن ارکان سے بات کریں مگر جب انہوں نے اپوزیشن ارکان سے بات کی تو انہوں نے جواب دیا کہ انہیں ان سے بات نہیں کرنی ہے۔

بلکہ حکومت سے پی ایس ڈی پی اور بجٹ سے متعلق بات کرنی ہے جو نامناسب تھا۔انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے گھر اور سیکرٹریٹ کے باہر اگر وہ بیٹھے ہوتے تو میں ذمہ دار تھا ان کے پاس چلا جاتا کہ وہ اندر آئیں اور بات کریں مگر جب وہ اسمبلی اندرسڑھیوں پر بیٹھے تھے تو پھر فرض ان کا تھا کہ وہ اسپیکر کے کہنے پر اندر جاکر اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر سے بات کرتے اور پھر اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر اگر بولتے کہ ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے چس میں حکومت اور اپوزیشن کے لوگ ہوتے ہم بات کرتے مگر معاملات خراب ہوکر کسی دوسرے رخ کی طرف چلی گئے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ایک سو ستر ارب کا بجٹ پیش کرنا خزانے کھولنے والی بات ہے نہ کہ بند کرنے والی بات ہے صوبے کی تاریخ میں سب سے زیادہ بجٹ ہماری حکومت نے پیش کیا ہے ، ہر حلقے میں جہاں گزشتہ ادوار میں تین چار کروڑ خرچ ہوا کرتے تھے۔

اب وہاں تین ارب روپے تک خرچ ہوئے ہیں۔ بلوچستان کے لوگوں کی ترقی کیلئے جتنا تین سال میں موجودہ حکومت نے کام کیے ہیں نہ صرف خزانہ کے دروازے بلکہ گیٹ بھی کھول دیئے ہیں اس کی مثال کبھی نہیں ملتی ، اپوزیشن کو کبھی پیسے نہیں ملتے تھے لیکن ان کی تجاویز پر ہم نے ان کے حلقوں میں پیسے دیئے موجودہ بجٹ اور پی ایس ڈی پی میں بھی اپوزیشن کے حلقوں اور تجاویز پر کام شامل ہیں۔ مقدمہ درج کرنے سے متعلق ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ قانون کا پورا نظام ہے آج اسمبلی کے احاطے میں جہاں میڈیا کے ساتھی کھڑے ہیں یہاں 18 جون کو کچھ اور لوگ کھڑے تھے اور وہ لوگ جو نہ تو اس اسمبلی کے ممبران تھے۔

نہ ان کو پاس جاری کئے گئے تھے ان میں سے کوئی گملہ پھینک رہا تھا کوئی پتھر پھینک رہا تھا اگر اس دن کوئی واقعہ ہوجاتا تو آج صورتحال بہت مختلف ہوتی انہوں نے کہا کہ اس مرتبہ بھی اگر اپوزیشن اسمبلی کے اندر ہوتی تو میں ان کیساتھ آکر بیٹھ جاتا مگر سڑک پر جاکر ہم نے اجلاس کرنا ہے یا تھانوں کے اندر بیٹھ کر کرنا ہے تو وہاں پر جانا غٰیر مناسب ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ سردار یار محمد رند میرے لیے انتہائی قابل احترام ہیں میں نے ہمیشہ ان کا احترام کیا ہے جب سینیٹ انتخابات ہورہے تھے اس وقت بھی ہمارے درمیان کچھ دوریاں آئی تھیں ، سردار یار محمد رند ناراض بھی ہوجاتے ہیں پھر خوش بھی ہوتے ہیں میرا ان سے کوئی گلہ نہیں ہے ، وہ میرے والد کیساتھ اسمبلی میں رہے ہیں ، سیاست میں اگر ہم جذبات سے کام لیں گے یا سیاست کو سیات کی طرز پر نہیں چلائیں گے تو پھر یہاں مسائل پیدا ہوں گے ، کچھ عرصہ پہلے بھی انہوں نے جب اسمبلی میں تقریر کرکے یہ کہا تھا ۔

کہ وہ وزیراعظم کے معاون خصوصی کے عہدے سے استعفیٰ دیں گے اس وقت مجھ سے کسی نے سوال کیا تھا جس پر میں نے کہا تھا کہ اگر سردار یار محمد رند معاون خصوصی یا وزارت سے استعفیٰ دیتے ہیں تو یہ میرا کام نہیں ہے یہ ان کا اپنا فیصلہ ہے جس پر وہ ناراض ہوگے تھے کہ میں کیوں وزارت سے استعفیٰ دوں گا۔ مجھے گورنر بلوچستان نے فون پر بتایا کہ سردار یار محمد رند کے بیٹے نے ان کا استعفیٰ گورنر بلوچستان کو پہنچاگئے ہیں اور گورنر سے درخواست کی ہے کہ اس کو منظور کریں ، استعفیٰ میں بھی انہوں نے کہا ہے کہ وہ میری وجہ سے مستعفی ہورہے ہیں ۔

صوبے کی تاریخ میں پہلی بار بجٹ میں ہائیر اور سیکنڈری ایجوکیشن میں اگر اس طرح کا بجٹ کبھی آ ہے تو میں ہم ذمہ دار ہیں بلوچستان کو ڈگری کالجز، ہائیر سیکنڈری کالجز ، بورڈنگ اسکول ، بسسز رہائشی سہولیات اسکالر شپ شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سردار یار محمد رند کو ہمارے ساتھ ہونا چائیے تھا مگر ہمارے بزرگ ہیں کچھ ناراض ہیںسردار یار محمد رند کا استعفی منظور کرنا یا نہ کرنا گورنر کا کام ہے۔ انہوںنے کہا کہ بین الاقوامی قوتیں ملک اور بلوچستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں،اسی بناء پر صوبے میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، ویسے بلوچستان میں امن وامان کی مجموعی صورتحال بہتر ہے