|

وقتِ اشاعت :   June 26 – 2021

ڈاکٹر معید یوسف نے کہا ہے کہ امریکی صدرجوبائیڈن اگر وزیراعظم عمران خان سے بات نہیں کرنا چاہتے تو نہ کریں یہاں بائیڈن کا کوئی انتظار نہیں کر رہا۔انہوں نے کہاکہ صرف الزامات لگانے ہیں اور اڈوں کی بات کرنی ہے تو وقت ضائع نہ کریں،معیدیوسف نے گڈ لگ بائیڈن بھی کہا۔معید یوسف نے اپنے دو ٹوک پیغام میں کہاکہ امریکا سے تجارت سمیت دوطرفہ تعلقات پر بات ہو گی، بات چیت افغانستان تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔

پاکستان دہشت گردی کا شکار رہا ہے، تمام سرحدوں سے اس کے خلاف منصوبہ بندی، حمایت اور اسپانسر پر مبنی دہشت گردی مسلط کی گئی جو بدقسمتی سے آج بھی ایک حقیقت ہے۔انہوں نے تاجکستان کے شہر دوشنبے میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے 16ویں اجلاس سے خطاب بھی کیا۔ان کا کہنا تھا کہ سب سے بڑا چیلنج دراصل افغانستان میں امن کے حصول میں ناکامی ہے۔ پاکستان بطور ملک تاریخی طور پر سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ڈاکٹر معید یوسف نے کہا کہ دہشت گردی کا تعلق کسی نسل، مذہب، قومیت، تہذیب یا نسلی گروہ سے نہیں ہونا چاہیے۔مشیر قومی سلامتی نے کہا دہشت گردی کی جڑیں اور دہشت گرد ہمارے ملک اور خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے مستقل طور پر فعال رہتے ہیں۔

لیکن عالمی سطح پر خود کو دہشت گردی کے خلاف تعاون کے حامی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔پاکستان کی جانب سے زبردست مؤقف اپنایاگیا ہے ،امریکی صدر جوبائیڈن سے بہرحال بہت سی امیدیں وابستہ تھیں کہ جوبائیڈن افغانستان میں قیام امن کیلئے اپنی کوششیں تیز کرینگے مگر جوبائیڈن کے صدر بننے کے بعد افغانستان میں حالات انتہائی خراب ہوتے جارہے ہیں اور افغانستان ایک بڑی خانہ جنگی کی طرف جارہا ہے۔

اس وقت افغان طالبان نے اہم پیشرفت کی ہے اور بعض علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے جبکہ شمالی اتحاد کے متعلق بھی خبریں آرہی ہیں کہ شمالی اتحادنے اپنے آپ کو منظم کرلیا ہے اور اپنے علاقوں میں طالبان کی پیش قدمی روکنے کیلئے بھرپور مزاحمتی پالیسی اپنائی ہے یقینا اس کے انتہائی خونی نتائج برآمد ہونگے مگر اس تمام تر صورتحال پر عالمی طاقتوں کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا جس عدم دلچسپی اور غیر سنجیدگی کے ساتھ وہ افغانستان مسئلے پر پالیسی اپنائے ہوئے ہیں اس سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ وہ اسی بہانے اپنے پنجے افغانستان میںگاڑناچاہتے ہیں کیونکہ گزشتہ روز ہی امریکہ کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا ہے کہ طالبان کی حالیہ جنگی کارروائیوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے امریکی اور اتحادی افواج کی انخلاء میں تیزی نہیں لائی جائے گی ۔

دوسری جانب امریکہ پاکستان سے فضائی وزمینی اڈوں کامطالبہ کررہاہے جبکہ پاکستان نے صاف انکار کردیا ہے یہی وجہ ہے کہ جوبائیڈن وزیراعظم عمران خان سے فی الوقت بات چیت نہیں کرنا چاہتے اور وہ اپنی شرائط پاکستان سے منوانے کیلئے یہ رویہ اپنارہے ہیں جس کا جواب معید یوسف نے واضح طور پر دیا ہے ۔مگر ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ افغان جنگ خطے کیلئے صرف خطرناک ثابت نہیں ہوگا بلکہ اس کے اثرات دنیا کے امن پر بھی پڑینگے جس کا ادراک عالمی طاقتوں کو ضرور ہے مگر اب وہ مستقبل میں خطے کیلئے کیا منصوبہ بندی کرنے جارہے ہیں جسے کیموفلاج میں رکھاگیا ہے لیکن صرف چند مفادات کے عوض امریکہ سمیت عالمی طاقتیں یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ اس پالیسی کے اثرات جب پڑنا شروع ہونگے تو ان کے اپنے ملک کے اندر سے عوامی ردعمل سامنے آنا شروع ہوجائے گاجو امن گزشتہ چند دہائیوں سے دنیا میں قائم ہے اسے خطرات لاحق ہونگے۔ اس لئے افغانستان مسئلے پر عالمی طاقتیں کوئی ایسا اقدام نہ اٹھائیں جس کا بوجھ وہ برداشت نہ کرسکیں۔