تربت: ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن پاکستان ڈاکٹر محمد جہانزیب خان نے صوبائی ایڈیشنل چیف سیکرٹری حافظ عبدالباسط کے ہمراہ دورہ تربت کا دورہ کیا۔ اس موقع پر کمشنر مکران شاہ عرفان غرشین ، وائس چانسلر تربت یونیورسٹی ڈاکٹر جان محمد اور ڈپٹی کمشنر کیچ حسین جان بلوچ اور دیگر آفیسرذ نے تربت پہنچنے ان کا شاندار استقبال کیا۔اس موقع پر نیشنل ہائی ویزے کے اہلکار بھی وہاں پر موجود تھے۔
اس دوران پروگرام کا انعقاد قرآن پاک کے تلاوت سے شروع ہوا۔ اس اجلاس میں تربت یونیورسٹی اور ہوشاب آوران روڈ کے ترقیاتی کاموں کا خصوصی طور پر جائزہ لیا گیا۔ اس موقع پراجلاس میں تربت یونیورسٹی کے پروجیکٹ ڈائریکٹر نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا، کہ تربت یونیورسٹی بنیادی طور پر اپنے وسائل کے ذریعے چل رہی ہے جبکہ صوبائی اور وفاقی حکومت بھی بوقت ضرورت ہر طرح کے تعاون کرتے ہیں۔
اس دوران تقریب کے شرکاء کو بریفننگ دیتے ہوئے کہا گیا کہ شروع میں تربت یونیورسٹی، بلوچستان یونیورسٹی کا ایک سب کیمپس تھا جبکہ 2013 میں اس کو باقاعدہ یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا۔ تربت یونیورسٹی بہت سے ضرورت مند طالب علموں کو اسکالر شپ دے رہی ہے ، جن میں ایئر ایجوکیشن کمیشن سکالر شپ، بیت المال سکالرشپ ،کریم دشتی اسکالرشپ، الٰہی بخش اسکالرشپ اور دیگر اسکالرشپ کے پروگرام شامل ہیں۔
اس دوران بتایا گیا کہ اس وقت یونیورسٹی تربت دو ریسرچ جنرل شائع کر رہی ہے، ان ریسرچ جنرلوں میں گدروشیاء اور میری ریسرچ جنرل ہیں۔یونیورسٹی نے 2019 میں پہلی بار 28 طالب علموں کو گولڈ میڈل دیا۔یہاں ایم ایس اور پی ایچ ڈی پروگراموں کا آغاز کیا گیا ہے اور بہت سے اسکالرز فارغ ہوئے ہیں جو کہ علاقے کی ترقی و تعمیر کے لئے اہم کردار ادا کریں گے۔اس وقت تربت یونیورسٹی کے تحت دو سب کیمپس بھی چل رہے ہیں جو میں پنجگور اور گوادر میں واقع ہیں، پنجگور کیمپس ابھی حال ہی میں بن گیا ہے ، وہاں طالب علموں کی تعداد تسلی بخش ہے اور گوادر میں 422 اسٹوڈنٹس زیر تعلیم ہیں۔
بریفنگ کے دوران یہ بتایا گیا کہ یونیورسٹی نے بہت سے ایم۔ او۔یو بین الاقوامی یونیورسٹیوں کے ساتھ سائن کے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فیز ون میں یونیورسٹی میں طلبہ کی گنجائش صرف دو ہزار تھی اور اب طلبہ کی تعداد4332 ہے۔ بریفنگ کے دوران یہ بھی بتایا گیا کہ پلاننگ کمیشن کو یونیورسٹی کی ضروریات کیحوالے سے لکھا گیا ہے ،یہ فیز ٹو کے کام ہیں۔ جن میں اکیڈمک بلاک، اسٹاف ریزیڈنس ،ہاسٹل اور دیگر پروجیکٹ شامل ہیں۔
بعد ازاں بریفنگ کے اختتام پر ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن ڈاکٹر محمد جہانزیب خان نے یونیورسٹی انتظامیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ تربت یونیورسٹی کا منصوبہ بہت اہمیت کا حامل ہے اور اس حوالے سے فیز۔ ون کے کام کافی حد تک مکمل ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہوگی کہ یونیورسٹی کو فیز۔ٹو کے کاموں کے لیے مزید فنڈز مہیا کئے جائیں۔ انہوں نے کہا بلوچستان کیدور دراز کے علاقے میں کام کرنا آسان نہیں ہے۔ یہاں ٹیچرز ز کو زیادہ سہولیات اور دیگر پرکشش مراحات دینے کی ضرورت ہے، ان حالات کو مدنظر رکھ کر ایچ۔ای۔
سی یہاں زیادہ سے زیادہ مدد و تعاون کرے اور ملک کے مختلف اداروں میں اساتذہ کے لیے تربیتی پروگرام شروع کرے ، تاکہ ٹیچرز دوسرے یونیورسٹیوں میں جائیں اور مزید ٹریننگ حاصل کریں ، انہوں نے مزید کہا کہ علاقے کی حالات کو سامنے رکھ کر یہاں کے علاقائی وسائل کو بھی بروئیکار لانا چاہیے اور مقامی لوگوں کو ہنر مند بنانا چاھیے، تا کہ وہ معاشی طور پر خود کفیل اور خود مختار بن سکیں۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کو ڈیجیٹل کنیکٹوٹی کی ضرورت ہے اور اس کے علاوہ وہ یونیورسل سروس فنڈ (USF)سے تعاون حاصل کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ صرف طلباء کی فیسوں سے یونیورسٹی نہیں چل سکتی بلکہ اس اس سلسلے میں صوبائی اور وفاقی حکومت مناسب بھی فنڈنگ کریں اور اسکالرشپ مہیا کیا کریں تاکہ جو طلباء گنجائش نہیں رکھتے وہ اپنے پڑھائی بغیر کسی رکاوٹ کے جاری کر سکیں۔آخر میں یونیورسٹی آف تربت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ ہے کہ دور افتادہ علاقہ ہے اس کے اسٹرکچر اور بلڈنگ کافی حد تک مکمل ہو چکی ہے اور اس کو مزید بہتر بنانے کی گنجائش ہے۔
بعد ازاں این۔ایچ۔اے کے نمائندوں نے شرکاء کو ہوشاب آواران روڈ ( ایم 8 )کے حوالے سے بھی بریفنگ دی۔ جو کہ سی پیک کا پروجیکٹ ہے انہوں نے کہا اس کا 33 فیصد کام مکمل ہوچکی ہیاور تیزی سے کام جاری ہے ، یہ پروجیکٹ اپریل 2024 کو مکمل ہوگی۔اس موقع پر چیئرمین پلاننگ کمیشن نے کہا ، بلوچستان کی ہائی وے جو بنے ہوئے ہیں ان کی سکیورٹی کے حوالے سے بھی منصوبہ بندی ہونی چاہیے . اگر روڈوں کی لائن اینڈ آرڈر اور سیکورٹی کی صورتحال صحیح نہیں ہیں تو بہت مشکلات درپیش ہوں گے۔
ہائی ویز پہ جہاں جہاں سیکورٹی کی ضرورت ہے اس کے لیے حکومت کو منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے اور یہ ایک نازک مسئلہ ہے انہوں نے کہا کہ انٹیلی جنس منصوبے کے تحت ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے اس کو محفوظ بنایا جاہے۔آخر میں ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن جہانزیب خان ، صوبائی ایڈیشنل چیف سیکرٹری ترقیات حافظ عبدالباسط ، کمشنر مکران اور ڈپٹی کمشنر کیچ حسین جان بلوچ ہیلی کاپٹر کے ذریعے میرانی ڈیم گئے وہاں ان کو سیکرٹری زراعت قمبر دشتی میرانی ڈیم کمانڈ ایریا کے بارے میں بریفنگ دیں گے۔