|

وقتِ اشاعت :   July 4 – 2021

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان نے امریکی افواج کی واپسی کے بعد چھوڑی گئی فورسز کی گاڑیوں اور بکتر بند گاڑیوں پر قبضہ کرلیا ہے۔میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر افغان طالبان کی کچھ تصاویر سامنے آنے کے بعد کی جانے والی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ طالبان نے گزشتہ ماہ جون میں 700 فوجی گاڑیوں کو قبضے میں لیا ہے جنہیں اب طالبان اپنی کارروائیوں کے لیے استعمال کریں گے۔طالبان کی جانب سے جاری ایک ویڈیو میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ انہوں نے افغان فورسز کے بھی متعدد ہتھیار قبضے میں لے رکھے ہیں۔غیر ملکی میڈیا کا بتاناہے کہ 30 جون تک کی جانیوالی تحقیقات میں یہ شواہد سامنے آئے کہ طالبان نے 715 عام گاڑیوں کو بھی تحویل میں لیا ہے

جبکہ اس کے علاوہ بھی متعدد سازو سامان اور گولہ بارود قبضے میں لیے جانے کی اطلاعات ہیں جن کی طالبان نے فی الحال کوئی تصاویر یا ویڈیوز جاری نہیں کی ہیں۔اس حوالے سے طالبان کی مشتبہ تصاویر اور ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ افغان طالبان ٹرکوں، توپوں اور بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ موجود ہیں۔امریکی اور اتحادی افواج کے انخلاء کے نتیجے میں گزشتہ روز امریکی فوج نے بگرام ائیربیس کو 20 سال بعد خالی کیا ہے جو اب باضابطہ افغان حکومت کے حوالے کردیا گیا ہے۔افغان حکام کے مطابق بگرام ائیربیس القاعدہ کے خلاف امریکی جنگ کا مرکز تھا۔

دوسری جانب امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے افغانستان میں سیکیورٹی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔پینٹاگون کے ترجمان جان کربی کاکہنا تھاکہ افغانستان میں سیکیورٹی کی صورتحال سے آگاہ ہیں اور اِس پرتشویش ہے۔انہوں نے کہا کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر واپس دیکھنا چاہتے ہیں اور حالیہ پُرتشدد واقعات طالبان کی امن عمل میں شرکت پرسوال اٹھاتے ہیں۔ افغانستان میں مذاکرات کے ذریعے لڑائی کے پرامن اختتام کے حق میں ہیں۔واضح رہے کہ افغانستان سے امریکی و دیگر غیرملکی افواج کا انخلا ء جاری ہے اور یہ عمل 11 ستمبر تک مکمل ہوجائے گا۔

بہرحال افغانستان کے متعدد علاقوں میں طالبان اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں اور اس وقت ایک انتہائی بھیانک صورتحال سامنے آرہی ہے مگر بدقسمتی سے بڑے ممالک اپنے مفادات کے پیش نظر افغانستان کے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے جس کا پہلے ہی اشارہ دیا گیا تھا اگر افغان امن عمل میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک ساتھ بٹھاکر بات چیت کو آگے نہ بڑھایاگیا تو افغانستان میں ایک بڑی خانہ جنگی شروع ہوجائے گی اور یہ ایک پراکسی وار میں تبدیل ہوجائے گی۔

البتہ پاکستان میں اس وقت یہی مسئلہ سب سے زیادہ زیر بحث ہے کہ کس طرح سے افغانستان میں فریقین کے درمیان ایک پُرامن ماحول میں بات چیت کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں جس کا ذکر اب امریکہ بھی کرنے لگاہے جن اقدامات کو پہلے امریکہ کو اٹھانا چاہئے تھا مگر انتہائی غیر سنجیدگی یا پھر ایک سوچھے سمجھے منصوبے کے تحت عالمی طاقتیں اس خطے کو جنگ کی طرف دھکیلنا چاہتی ہیں اگر ان کی نیت ایسا نہیں ہے توکیونکر افغان حکومت کو بے اثر کرکے امریکہ خود فریق بن کر امن معاہدہ میں شامل ہوا،ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ افغانستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز خاص کر افغان حکومت کو ہی براہ راست فریق بناتے تاکہ آگے چل کر معاملات کو بہتر اور احسن انداز میں حل کیاجاسکتا مگر شومئی قسمت ایک بار پھر وہی تاریخ دہرائی جارہی ہے جو سوویت یونین کی شکست اور واپسی کے بعد افغانستان کا حال ہوا تھا اور بعد کی صورتحال سب کے سامنے ہے کہ کس طرح سے اس جنگ نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر تباہی مچاہی تھی۔