|

وقتِ اشاعت :   July 6 – 2021

افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان دوحہ امن معاہدے پر ایک اور مسئلہ کھڑاہوچکاہے جس میں امریکی افواج کی افغانستان میں موجودگی ہے اور اس کی باقاعدہ تصدیق ترجمان پینٹاگون نے میڈیا بریفنگ کے دوران کیا تھااب سب سے بڑی تشویشناک بات یہ ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان مسائل بڑھ گئے تو یقینا یہ معاملہ جنگ کی طرف چلاجائے گا اور اس وقت پاکستان میں بھی تشویش کا اظہار کیاجارہا ہے کہ اگر افغانستان ایک بار پھر خانہ جنگی کی طرف گیا تو پاکستان کیلئے بہت سے مسائل دوبارہ جنم لے سکتے ہیں.

جس میں دہشت گردی کے واقعات اور افغان مہاجرین کی بڑی تعداد میں دوبارہ پاکستان آمد ہے جبکہ کئی دہائیوں سے لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین پہلے سے ہی بلوچستان اور کے پی کے میں موجود ہیں اور یہاں کی سیاسی وعسکری قیادت نے ان کی باعزت وطن واپسی کے حوالے سے کوششیں کی ہیں مگر حالات کے مطابق ان کی واپسی پر پاکستان رضامند رہاہے اور اسی لئے مسلسل پاکستان اس کوشش میں ہے کہ افغانستان میں امن عمل کو سنجیدگی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچایاجائے جس پر پاکستان مکمل تعاون کرنے کیلئے تیار ہے کیونکہ پاکستان مزید مہاجرین اور دہشت گردی کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔حال ہی میں چند ناخوشگوار دہشت گردی کے واقعات بلوچستان سمیت ملک کے دیگر حصوں میں پیش آئے اوراس میں افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے بھارت ماضی کی طرح ان دہشت گردی کے واقعات میں ملوث رہاہے ۔

بہرحال قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی تو سخت ردعمل دیں گے۔برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ تمام غیر ملکی فوجیوں کو مقررہ تاریخ تک افغانستان سے جانا ہو گا ورنہ ردعمل دیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ انخلا کے بعد فوجی کنٹریکٹرز سمیت غیر ملکی افواج کو افغانستان میں نہیں رہنا چاہیے، دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی تو کیسے آگے بڑھنا ہے یہ طالبان قیادت فیصلہ کرے گی۔ترجمان طالبان کا کہنا تھا کہ ہم سفارتخانوں، این جی اوز اور ان میں کام کرنے والوں کے خلاف نہیں، ہم غیر ملکی فوجی قوتوں کے خلاف ہیں۔

سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ ہم سفارتخانوں، این جی اوز اور ان میں کام کرنے والوں کے لیے رکاوٹ نہیں بنیں گے۔واضح رہے کہ رواں ماہ 3جولائی کو پینٹاگون ترجمان نے ایک میڈیابریفنگ کے دوران کہا تھا کہ افغانستان سے انخلا کے بعد امریکی فوج کی مختصر تعداد وہاں رہے گی۔ترجمان جان کربی نے کہا کہ صدربائیڈن کی ہدایات کے مطابق افغانستان سے محفوظ انخلاجاری ہے اور وہاں سے امریکی افواج کا انخلا اگست کے آخر تک مکمل ہوجائیگا جبکہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد امریکی فوج کی مختصر تعداد وہاں موجود ہوگی۔

ترجمان پینٹاگون نے بتایا کہ افغانستان میں امریکی مشن کی کمانڈ جنرل فرینک میکنزی کو منتقل کرنیکی منظوری دے دی گئی ہے اور وہاں امریکی مشن کی کمانڈکی منتقلی رواں ماہ کے آخر تک نافذ ہونے کی توقع ہے۔ جنرل میکنزی افغانستان میں امریکی افواج کے کمانڈرکی تمام ذمہ داریاں نبھائیں گے جبکہ جنرل ملر ذمہ داریاں جنرل میکنزی کو منتقل کرنے کیلئے کچھ ہفتے افغانستان میں رہیں گے۔دونوں فریقین کے مؤقف سے یہ بات واضح ہے کہ دوحہ امن معاہدہ خطرے میں پڑرہا ہے اور خطے میں ایک بار پھر جنگی صورتحال جیسا ماحول بننے کا خدشہ ہے لہٰذا افغان طالبان اور امریکہ دونوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ دوحہ معاہدے پر عمل کرتے ہوئے ایک پُرامن افغانستان کیلئے سنجیدگی سے سوچیں جوسب کے مفاد میں ہو۔