وزیراعظم عمران خان نے پہلے بھی گوادرہ کا درہ کیا تھا مگر گزشتہ روز ہونے والے دورہ کوبہت اہمیت دی جارہی ہے کیونکہ پہلی بار وزیراعظم عمران خان نے بلوچستان کے عسکریت پسندوں کے ساتھ بات چیت کا ذکر چھیڑا ہے اور جب سے عمران خان وزیراعظم بنے ہیں انہوں نے کبھی بھی اس حوالے سے یہ بات نہیں کی اور نہ ہی موجودہ حکومت کے کسی اہم عہدے پر موجود شخصیت نے بلوچستان کی عسکریت پسند تنظیموں سے مذاکرات کا ذکر کیا ہے۔
گوادر کے دورہ کے موقع پر عمائدین اور طلبہ سے خطاب کے دوران وزیراعظم عمران خان کاکہناتھاکہ بلوچستان میں عسکریت پسندوں سے بات کرنے کا سوچ رہا ہوں مقصد صرف الیکشن جیتنا نہیں تھا، وزیراعظم بننا ہو تو اتنا بلوچستان پر توجہ نہیں دوں گا۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف لندن میں شاپنگ کرتے رہے، بلوچستان نہیں آئے، اپنے دور میں نواز شریف نے لندن کے 24 دورے کیے جس میں سے 23 نجی دورے تھے جبکہ آصف زرداری 51مرتبہ دبئی گئے اور شاید ایک باربھی گوادر نہیں آئے۔
وزیراعظم کا کہنا تھاکہ جو پاکستان کا سوچے گا وہ ضرور بلوچستان کا سوچے گا، اگر وہ الیکشن کا سوچے گا تو فیصل آباد ڈویژن کا سوچے گا جس کی بلوچستا ن سے زیادہ سیٹیں ہیں۔ سوچا تھا کہ اگر اللہ نے موقع دیا تو ہم بلوچستان پر توجہ دیں گے، بلوچستان کے مزاحمت کرنے والوں سے بھی بات کرنے کا سوچ رہا ہوں، ہوسکتا ہے کہ ماضی کی رنجشیں ہوں، ہندوستان ان کو انتشار پھیلانے کیلئے استعمال کرے لیکن اب حالات وہ نہیں ہیں۔
وزیراعظم کا کہنا تھاکہ بلوچستان کے ساتھ مرکز اور صوبے کے سیاستدانوں نے بھی انصاف نہیں کیا جو پیسہ آتا تھا وہ ٹھیک سے خرچ نہیں کیا جس سے احساس محرومی پھیل گیا۔ گھروں کی تعمیر کیلئے سستے قرضوں کی بلوچستان سے 4ہزار درخواستیں آئی ہیں، احساس پروگرام میں اب تک چار ہزار 698 نوجوانوں کو اسکالر شپ دے رہے ہیں، بلوچستان کیلئے ہرسال تعاون میں حصہ بڑھاتے جائیں گے۔
وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھاکہ سی پیک کا سب سے زیادہ فائدہ بلوچستان کو ہوگا، گوادر کی ترقی میں مقامی لوگوں کا فائدہ پہلے یقینی بنائیں گے۔بہرحال وزیراعظم کے اس بیان کو بلوچستان میںغیر معمولی طور پر دیکھااور تجزیہ کیاجارہا ہے کیونکہ وزیراعظم عمران خان نے بارہا یہ بات دہرائی ہے کہ میں ماضی کے وزرائے اعظم میں سے نہیں کہ سازشیں کروں اور اداروں کے اندر مداخلت کرکے من پسند شخصیات کو اہم عہدوں پر فائز کروں اس لئے ماضی کے حکمرانوں کے تعلقات اداروں کے ساتھ بہتر نہیں رہے ہیں۔
وہ نواز شریف کا بارہا ذکر کرتے رہے ہیں کہ نوازشریف نے ہر وقت اداروں کے اندر مداخلت کی جس کی وجہ سے حکومت وعسکری قیادت کے درمیان ہم آہنگی نہیں رہی اب یہ گمان کیاجارہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے عسکریت پسندوں کے متعلق جو بات کی ہے اس میں عسکری قیادت کو اعتماد میں لیکر ہی کہی ہے۔
اور اس حوالے سے شاید روڈ میپ بھی تیارکیاجارہا ہے کہ کس طرح سے مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھایاجائے ،سب کی نظریں اسی پر مرکوز ہیں اور عین ممکن ہے کہ ماضی میںجس طرح سے عسکریت پسندوں سے بات چیت کی حکمت عملی اپنائی گئی تھی اس سے یہ بہت مختلف ہوگا اور باقاعدہ اس میں اہم اعلیٰ سیاسی وعسکری شخصیات شامل ہونگی جو بامقصد مذاکرات کیلئے چند دیگر شخصیات کوبحیثیت ثالث فریقین کے طور پر شامل کرینگے جو اس عمل میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ قیاس آرائیاں البتہ بہت ہورہی ہیں لیکن اس بار یہ امید کی جارہی ہے کہ بلوچستان کے عسکریت پسندوںا ور حکومت کے درمیان بات چیت میں کچھ مثبت نتائج برآمد ہونے کے قوی امکانات موجود ہیں جوآئندہ چندماہ کے دوران سامنے آسکتے ہیں۔