وزیراعظم عمران خان کے عسکریت پسند بلوچوں سے بات چیت کے اعلان کے بعد ایک نئی بحث چھڑ چکی ہے تاہم نوابزادہ شاہ بگٹی کو معاون خصوصی کا عہدہ دے کر ناراض بلوچوں سے بات چیت کا ٹاسک دیا گیا ہے تاکہ وہ اس عمل کو آگے بڑھاسکیں۔ ابھی چند روز ہی نہیں گزرے کہ حکومتی حلقوں کی جانب سے اسے مختلف تناظر میں دیکھا جارہا ہے بہرحال وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات فوادچوہدری نے میڈیا کو بریفنگ کے دوران بتایا کہ کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ جن لوگوں کے تعلقات بھارت کے ساتھ ہیں ان سے بات چیت نہیں کی جائے گی۔
دیگر شخصیات اور افراد سے مذاکرات پر کام شروع ہوچکا ہے مگر دیگر حکومتی حلقوں میں موجود بلوچستان سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ فی الحال مذاکرات کے متعلق بہت سے ابہام اورتحفظات موجود ہیں اس لئے بات چیت اتنی جلد شروع ہونے کے امکانات نہیں۔ دوسری جانب گزشتہ روزوزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کا میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میرے لئے ناراض بلوچ و ہ ہیں جو بلوچستان میں بیٹھے ہوئے ہیں اور انکے پاس پینے کا پانی، بجلی، سڑکیں اور بنیادی سہولیات نہیں ہیں پہلی بار حکومت نے بلوچستان کے سپوت کو اختیارات کے ساتھ بیرون ملک بیٹھے لوگوں سے بات چیت کا اختیار دیا ہے امید ہے وہ مثبت کردار اداکریں گے، ملک کے اندر بیٹھے ناراض بلوچوں سے متعلق بیان دے کر سردار اختر مینگل نے تین سال پہلے میری کہی ہوئی بات کی تائید کی ہے۔
تین سال پہلے جب ہماری حکومت بنی تو میں نے کہا تھاکہ میرے لئے ناراض بلوچ وہ ہیں جو بلوچستان کے اندر بیٹھے ہیں اور انکے پاس بنیادی سہولیات نہیں ہیں،ان ناراض بلوچوں کے مسائل سننے کے ساتھ ساتھ انکے حل کے لئے اقدامات بھی کئے جائیں،ہمارے لئے ملک میں بیٹھے اور ملک سے باہر بیٹھے دونوں لوگ ضروری ہیں بلوچستان کے اندر بھی بہت سے لوگ پالیسیوں،منصوبوں پر ناراض ہیں ہمیں انکی بہتری کے لئے بھی کام کرناچاہیے۔ بہرحال ناراض بلوچوں سے مذاکرات کا معاملہ پیچیدہ ہے یہ نوابزادہ شاہ زین بگٹی کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ کن شخصیات سے بات کرینگے کیونکہ یہ بات بلوچستان کے سیاسی وصحافتی حلقے بخوبی جانتے ہیں کہ نوابزادہ شاہ زین بگٹی اور نوابزادہ براہمداغ بگٹی کے درمیان کسی طرح کا رابطہ نہیں ہے بلکہ قبائلی وسیاسی حوالے سے ایک دوسرے کے سخت ترین مخالف بھی ہیں، سب سے اہم بات یہ ہے کہ نوابزادہ شاہ زین بگٹی کو جب معاون خصوصی مقرر کرتے ہوئے یہ ٹاسک دیا گیا تو سب کے ذہنوں میں یہی بات آئی کہ نوابزادہ براہمداغ بگٹی سے وہ بات کرینگے۔
کیونکہ وہ دونوں چچازاد بھائی ہیں اور مین اسٹریم میڈیا پر اس حوالے سے بہت زیادہ بحث ہوئی اور خبریں بھی بنیں مگر ڈیرہ بگٹی کی سیاسی معاملات اپنی جگہ قبائلی مسائل بھی بہت زیادہ ہیں اور اس حوالے سے بعض شخصیات ایک دوسرے کے سخت ترین حریف ہیں جو حکومت کے اندر بھی موجود ہیں جبکہ نواب عالی بگٹی کے الگ مسائل اس حوالے سے موجود ہیں تو کسی طرح بھی یہ بات ہضم نہیں ہوتی کہ نوابزادہ براہمداغ بگٹی سے بات چیت ہوگی اور نوابزادہ شاہ زین بگٹی اس حوالے سے بہت بڑا کردار ادا کرینگے، ہاں اگر اس میں ان کے چچا نوابزادہ جمیل بگٹی سمیت دیگرصوبائی و وفاقی حکومت وعسکری قیادت سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی ایک فہرست ہوتی جن کو ٹاسک دیا جاتا تو کسی حد تک یہ باور ہوجاتا کہ کسی نہ کسی طرح سے کوئی راستہ بات چیت کے حوالے سے نکالاجارہا ہے جس طرح سابقہ دور حکومت میں مذاکرات سے متعلق ملاقاتیں اور بات چیت ہوئی بے شک اس کے نتائج برآمد نہیں ہوئے۔بہرحال اب دیکھتے ہیں کہ نوابزادہ شاہ زین بگٹی چند ہفتوں یا مہینوں کے دوران کیانتائج دینگے اور کن شخصیات سے وہ بات چیت کے حوالے سے کامیاب ہونگے یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔