|

وقتِ اشاعت :   July 12 – 2021

مشیر برائے قومی سلامتی امور ڈاکٹر معید یوسف نے واضح طور پر کہا ہے کہ اگر حالات خراب ہوئے تو پاکستان افغان مہاجرین کو قبول کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔غیرملکی ذرائع ابلاغ کو انٹرویودیتے ہوئے ڈاکٹرمعید یوسف کا کہنا تھا کہ پاکستان نے مذاکرات کی راہ ہموار کی لیکن کبھی بھی مذاکرات کا حصہ نہیں تھا۔ طالبان پر کبھی ہمارا کنٹرول تھا اور نہ اب ہے۔ اگر کسی کیمپ میں شامل ہونے کا دباؤ آیا تو پاکستان کا فیصلہ سب کو پتہ ہے۔

مشیر برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف کاکہناتھاکہ جب پاکستان مشورہ دیتا تھا تو مداخلت کا الزام لگتا تھا۔ پاکستان کہتا رہا ہے کہ افغان مسئلے کا حل جنگ نہیں ہے۔ اب مشورہ نہیں دے رہا تو کہا جاتا ہے کہ پاکستان کیوں کچھ نہیں کررہا ہے؟ڈاکٹر معید یوسف نے دعویٰ کیا کہ پاکستان نے امریکہ کو انخلاء کا مشورہ دیا تھا۔ انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ 90 کی دہائی کی غلطی دوبارہ کر رہا ہے۔ امریکہ کا 20 سال کی سرمایہ کاری چھوڑ کرجانا سمجھ سے باہر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے واضح کیا ہے کہ باہمی مفادات کے اصول پر کام کریں گے۔

ڈاکٹر معید یوسف نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان کسی کیمپ کا حصہ نہیں ہے اور سب سے اچھے تعلقات چاہتا ہے۔ دوسری جانب ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان افغان امن عمل کا سہولت کار ہے ضمانتی نہیں، امن کیلئے کوشش کرتے رہیں گے، ہمارا افغانستان میں کوئی فیورٹ نہیں، افغانستان نے آگے کیسے بڑھنا ہے فیصلہ افغان عوام نے کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں بندوق فیصلہ نہیں کر سکتی، افغانستان کے فریقین کو بیٹھ کر مسئلے کا حل نکالنا ہو گا، خطے کے اسٹیک ہولڈرز کو افغان فریقین سے مل بیٹھنا ہو گا۔انہوں نے واضح کیا کہ ہم اپنی سرزمین کو کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ سب جانتے ہیں داعش اور ٹی ٹی پی افغانستان میں موجود ہیں، حالات خراب ہوئے تو افغان مہاجرین کے آنے کا خدشہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں سول وار سے کسی کا فائدہ نہیں ہو گا، پاک افغان بارڈر پر بارڈر سیکیورٹی مینجمنٹ بہت مستحکم ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ افغان سرحد پر نوے فیصد سے زائد حصے پر باڑ لگ چکی ہے، دوسری طرف سے سرحد انتظامات ائیر ٹائٹ نہیں رکھے گئے۔بہرحال جس طرح سے افغانستان میں صورتحال میں تیزی سے تبدیلی آرہی ہے افغان طالبان کی بڑھتی پیش قدمی ایک نئی جنگ کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے مگر پاکستان نے اس تمام تر صورتحال میں ایک واضح مؤقف اپنایا ہے کہ افغانستان میں امن عمل کی کامیابی ضروری ہے تاکہ خطے میں استحکام ہو اور تمام اسٹیک ہولڈرز کی شراکت داری سے ایک مضبوط حکومت کا قیام عمل میںلایاجائے جو سب کے مفاد میں ہوکیونکہ پاکستان نے افغان وار کو زیادہ جھیلا ہے .

دہشت گردی اور مہاجرین کی بڑی تعداد میں آمد سے پاکستان زیادہ متاثر ہوا ہے اگر خدانخواستہ دوبارہ خانہ جنگی کی طرف افغانستان جائے گا تو یقینا پاکستان پر اس کے اثرات پڑینگے مگر ساتھ ہی یہ جنگ بہت ہی بھیانک طریقے سے خطے سمیت دنیا بھر میں پھیل جائے گا ۔لہٰذا عالمی قوتوں کی ذمہ داری پر بار بار اس لئے زور دیاجارہا ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کریں افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء جس طرح سے ہورہی ہے یہ تشویش کی بات ہے پہلے یہ طے پایاتھا کہ افغانستان کے اندرونی معاملات کو نمٹایاجائے گا تاکہ افغان عوام کی خواہش کے مطابق ایک حکومت کی تشکیل ممکن ہوسکے جس سے افغانستان ایک مستحکم ملک کی صورت میں سامنے آئے ناکہ وارجیساماحول پیداہوجو سب کیلئے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔