وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ناراض بلوچوں سے مذاکرات کی بات کے بعد بلوچستان کے سیاسی ومعاشی حالات پرملک بھر میں ایک نئی بحث جاری ہے خاص کر میڈیا پر سیاستدان اور مبصرین اپنی رائے کا اظہار کررہے ہیں۔ ماضی سے لیکر حال تک کی صورتحال پر بات کی جارہی ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ کس طرح حل ہوسکتا ہے اور بلوچستان جودہائیوں سے پسماندگی اور محرومیوں کا شکار ہے انہیں دور کرکے خوشحال بلوچستان کے خواب کو حقیقی جامہ پہنایاجائے۔
بہرحال اس حوالے سے ماضی کی طرف جھانکنے کی اشد ضرورت ہے کہ بلوچستان اور وفاق کے درمیان خلیج کی بنیادی وجوہات کیا ہیں اور کیونکر مذاکرات کے نتائج مختلف دہائیوں سے سود مندثابت نہیں ہوئے۔ بلوچستان اور وفاق کے درمیان خلیج دہائیوں سے موجود ہے، بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ وفاق نے کبھی بھی سنجیدگی کے ساتھ مذاکرات نہیں کئے جبکہ وفاقی حکومتوں کا الزام رہا ہے کہ چند سردار بلوچستان کی ترقی نہیں چاہتے بلکہ محرومی کی آڑ میں اپنے مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں،1973ء کی دہائی سے بلوچستان اور وفاق کے درمیان خلیج میں شدت تیزی سے آئی جب 1970 کے انتخابات میں بلوچ قوم پرست رہنماؤں کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی نے بلوچستان میں 20 سے 11 نشستیں لینے میں کامیاب ہوئی اور اس طرح پہلی بار سردارعطاء اللہ خان مینگل وزیراعلیٰ بلوچستان منتخب ہوجاتے ہیں
جبکہ میر غوث بخش بزنجو گورنر بلوچستان بن جاتے ہیں یہ حکومت زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتی اس کی وجہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور نیشنل عوامی پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں کے درمیان اختیارات اور صوبائی معاملات میں شدید اختلافات کاپیداہونا ہے، پھر اختلافات اس قدر شدت اختیار کرجاتے ہیں کہ 1973 ء کو ذوالفقار علی بھٹو نیپ کی حکومت کو تحلیل کرکے گورنر راج نافذ کردیتے ہیں اورنواب اکبر خان بگٹی کو گورنر بلوچستان بنادیتے ہیں جس کے بعد مینگل اور مری قبائل کی بڑی تعداد مسلح ہوکر پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں، نواب خیر بخش مری کابل چلے جاتے ہیں جبکہ سردار عطاء اللہ مینگل لندن میں طویل عرصہ تک جلاوطنی اختیار کرتے ہیں۔90ء کی دہائی کے بعد مری و مینگل قبائل کے افراد غیر مسلح ہوجاتے ہیں
جبکہ نواب خیر بخش مری اور سردار عطاء اللہ مینگل بھی جلاوطنی ترک کرکے پاکستان واپس آجاتے ہیں اور ایک بار پھر بلوچ قوم پرست جماعتیں پارلیمانی سیاست کا حصہ بن جاتے ہیں۔بلوچستان کے زخم ابھی گہرے تھے جنہیں مرہم کی ضرورت تھی مگر بدقسمتی سے 1999 ء میں جنرل پرویز مشرف منتخب حکومت کو ختم کرکے مارشل لاء نافذ کردیتے ہیں جبکہ 2004ء کے دوران سابق صدر پرویز مشرف بلوچستان میں میگا منصوبوں کیلئے پالیسیوں کا آغاز کرتے ہیں، دوسری جانب بلوچ قوم پرست جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں کو بلوچ دشمن قرار دیکر نئی سیاسی صف بندی شروع کرتے ہیں اور اس طرح چار جماعتی بلوچ اتحاد تشکیل دی جاتی ہے جو جمہوری وطن پارٹی، حق توار، بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی پر مشتمل ہوتی ہے۔
پرویز مشرف قوم پرست جماعتوں سے مذاکرات کیلئے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دیتے ہیں مگر 2005ء کے دوران ڈیرہ بگٹی میں ایک ہولناک واقعہ رونما ہوجاتا ہے جس کے بعد مذاکرات سے نواب اکبر خان بگٹی انکار کرتے ہیں، جنرل پرویز مشرف 2005 ء کے ہی دوران سیدمشاہدحسین کے ذریعے چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الہٰی نواب اکبر خان بگٹی سے بات چیت اور ثالثی کیلئے بلوچستان کی اہم شخصیات سے رابطہ کرتے ہیں تاکہ دوبارہ مذاکرات شروع کئے جاسکیں اور جو تحفظات ہیں ان پر بات کی جاسکے۔
بہرحال اس بار نواب اکبرخان بگٹی چوہدری برادران سے بات چیت کیلئے بڑی مشکل سے راضی ہوجاتے ہیں اور بات چیت کا دور شروع ہوجاتا ہے اور کسی حد تک بات چیت کا عمل کامیابی کی طرف بڑھنے لگتا ہے مگر نواب اکبر خان بگٹی کے قلعہ پر حملے کے بعد معاملات چوہدری برادران کے ہاتھوں سے بھی نکل جاتے ہیں اور اس طرح نواب اکبرخان بگٹی تراتانی کے پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں۔ 26اگست 2006ء کو نواب اکبرخان بگٹی تراتانی کے پہاڑوں میں شہید ہوجاتے ہیں۔
مگر اس واقعہ کے متعلق آج تک اصل حقائق سامنے نہیں آئے کہ کس طرح سے یہ واقعہ رونما ہوا۔ اس وقت کی حکومت کچھ اور واقعہ بیان کرتی ہے جبکہ قوم پرست اسے ایک گرینڈآپریشن کا نتیجہ قرار دیتے ہیں مگر آج تک اس کی مصدقہ تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔ بہرحال اس واقعہ کی ہر سطح پر مذمت کی گئی ملک بھر کے سیاستدانوں نے اسے بلوچستان کے حالات کے متعلق نیک شگون قرار نہیں دیا اور اس طرح سے یہ جنگ بلوچستان کے مختلف اضلاع میں پھیل گئی۔
یہ ایک پس منظر تھا کہ اگر یہ واقعہ رونما نہ ہوتا تو آج یقینا بلوچستان کے حالات کچھ اور ہوتے۔اب نوابزادہ شاہ زین بگٹی کو معاون خصوصی بناتے ہوئے انہیں ناراض بلوچوں سے بات چیت کا ٹاسک تو دیا گیا ہے مگر حکومتی حلقوں کی جانب سے ہی اس پر تحفظات کااظہار کیاجارہا ہے اس لئے یہ کہنا کہ مذاکرات بانتیجہ اور بامقصد ثابت ہونگے اس کے آثار دکھائی نہیں دیتے مگر حکومت کو اس حوالے سے ضرور سوچنا چاہئے کہ کس طرح سے بات چیت کے عمل کو آگے بڑھایاجائے اور اس میں گنجائش پیدا کرتے ہوئے بلوچستان کے قبائلی، سیاسی شخصیات سمیت وفاقی عہدیداران اور عسکری حکام پر مشتمل ایک بڑی کمیٹی تشکیل دی جائے۔ پھر امید کی جاسکتی ہے کہ مذاکرات کے مثبت نتائج برآمدہوں گے۔