محکمہ صحت کے حکام کی جانب سے کوئٹہ اورتربت میں ڈیلٹا وائرس کی تصدیق کردی گئی ہے،21 سیمپلز اسلام آباد بھجوائے گئے جن میں کوئٹہ کے 11 اور تربت کے 5 افراد کے ٹیسٹ مثبت آئے ہیں۔اسلام آباد سے آنے والی رپورٹ میں بھارتی وائرس ڈیلٹا کی نشاندہی ہوئی ہے،محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ مکران ڈویژن میں زیادہ لوگ مڈل ایسٹ سے آتے ہیں،مکران اور کوئٹہ کے لوگوں کی کراچی آمدورفت زیادہ ہے جس سے یہ وائرس منتقل ہوا ہے۔
دوسری جانب کورونا وائرس کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر ضلعی انتظامیہ نے کوئٹہ میں سمارٹ لاک ڈائون کا نوٹفکیشن جاری کردیاہے جس کے مطابق شاپنگ مالز،مارکیٹ،جوتے،کپڑے کی دکانیں صبح 9 سے رات 10 تک کھولنے کی اجازت ہوگی جبکہ دودھ،دہی،تندور اور میڈیکل اسٹورز 24 گھنٹے کھلے رہیں گے۔ بکرا عید کی مناسبت سے 10 مقامات پر مویشی منڈیاں لگائی جارہی ہیں جو رات 10 بجے تک کھلی رہیں گی ،کھلے مقامات پر 400 افراد کے ساتھ شادی کی تقریبات کی اجازت ہوگی جبکہ جمعہ کے دن مکمل لاک ڈائون ہوگا۔
دوسری جانب صوبائی وزیر داخلہ نے موجودہ کورونا وائرس کے پیش نظر عندیہ دیا ہے کہ اگراحتیاطی تدابیر اور ایس اوپیز پر عمل نہ کیا گیا توسمارٹ لاک ڈاؤن کے سوا کوئی چارہ نہیں ،ان کا کہنا تھاکہ شہریوں کی بے احتیاطی اور ایس او پیز پر عمل نہ کرنے سے کورونا کی چوتھی لہر دروازے پر دستک دے رہی ہے، ایس او پیز پر عملدرآمد نہ کئے جانے کے باعث کورونا کیسوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے جبکہ مارکیٹوں، بازاروں اور دیگر عوامی مقامات پر ایس او پیز پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے اگر پابندیوں سے بچنا ہے تو ہر صورت ایس او پیز پر عمل کرنا ہوگا۔بہرحال بلوچستان میں بھارتی ڈیلٹا وائرس کی تصدیق ایک خطرناک صورتحال کی نشاندہی کرتی ہے کیونکہ بھارت میں ڈیلٹا وائرس نے جس طرح سے تباہی مچائی دنیا کے کسی اورملک میں اتنے اموات نہیں ہوئے اور بری طرح وہاں معمولات زندگی متاثر ہوئے ، ایک ہُو کا عالم تھا، قبرستان اور شمشان گھاٹوں میں جگہ کم پڑ گئے تھے لوگ اپنے پیاروں کو ندیوں میں بہانے پر مجبور ہوگئے تھے ۔
خدا نہ کرے کہ یہاں ڈیلٹا وائرس پنجے گاڑھے کیونکہ ہماری صحت کا جونظام ہے وہ اس قسم کی صورتحال میںمکمل تباہ ہوجائے گی، اس لئے شہری خود اس حوالے سے سوچیں اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے ہر قسم کی احتیاطی تدابیر اپنائیں کیونکہ ڈیلٹاوائرس کے مثبت کیسز اگر تیزی سے رپورٹ ہونا شروع ہوگئے تو پورے ملک میں ایک نیا بحران جنم لے گا اور یہ تباہی لوگوں کو بہت سی مشکلات سے دوچار کرسکتا ہے ۔لہٰذا حکومت تو اس حوالے سے اقدامات اٹھائے گی مگر شہریوں پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اور اپنے پیاروں کی زندگیاں بچانے کیلئے ہر ممکن احتیاطی تدابیر اپنائیں کیونکہ بعد کا پچھتاوا کسی کام نہیں آئے گا،معاشی حوالے سے تو تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا مگر قیمتی جانوں کے ضائع ہونے کا جوخطرہ پیدا ہوگا وہ ایک بہت بڑے انسانی بحران کو جنم دے گا۔