|

وقتِ اشاعت :   July 26 – 2021

افغان طالبان نے امن معاہدے کے لیے افغان صدر اشرف غنی کے استعفے کا مطالبہ کردیا۔ افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ افغانستان پر طاقت کے بل بوتے پر قبضہ کرنا نہیں چاہتے۔افغان طالبان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ افغان صدر اشرف غنی کو عہدے سے ہٹائے بنا امن معاہدہ نہیں ہوسکتا۔ افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے واضح طورپر کہا کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے نئی حکومت کی ضرورت ہے۔دوسری جانب امریکہ سمیت 16 ممالک نے طالبان سے فوری طور پر جنگی کارروائیاں روکنے کا مطالبہ کر دیا۔

افغان میڈیا کے مطابق کابل میں امریکہ سمیت 16 ممالک کے سفارتی مشنز نے طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنی حالیہ جنگی کارروائیاں فوری طور پر روک دیں جو شہری آبادی کو نقصان پہنچانے کے علاوہ لوگوں کو بے گھر کرنے کا بھی سبب بن رہی ہیں۔کابل میں امریکی سفارت خانے سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ طالبان کی حالیہ کارروائیاں ان کے دوحہ میں کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی ہیں جن میں کہا گیا تھا کہ وہ مذاکرات کے ذریعے افغان تنازعے کا حل چاہتے ہیں۔بیان میں کہا گیا کہ طالبان کے زیرقبضہ علاقوں میں خواتین کے حقوق کچلنے کی معتبر اطلاعات ہیں اور ان علاقوں میں میڈیا آرگنائزیشنز بند کرنے کی بھی اطلاعات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ طالبان کا جارحانہ رویہ دوحہ امن عمل اور ان کی جانب سے مذاکرات کی بنیاد پر ہونے والے سمجھوتے کی حمایت کے دعوے کے برعکس ہے۔ طالبان کی جارحیت کے نتیجے میں معصوم افغان شہریوں کی ہلاکتوں سمیت ٹارکٹ کلنگ، افغان شہریوں کی نقل مکانی، لوٹ مار اور ذرائع مواصلات کی بربادی جیسے واقعات پیش آئے ہیں۔اس سے قبل امریکی انٹیلی جنس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ افغان طالبان کا آخری پڑاؤ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ہو گا۔امریکی نشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس کے تازہ ترین جائزے کے مطابق افغانستان میں طالبان تحریک کی رفتار اور پیش قدمی اندازے سے زیادہ ہے جبکہ اپنی رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ افغان طالبان کی تیز رفتاری ملک میں امن و امان کی صورتحال کے بگاڑ کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی انٹیلی جنس رپورٹوں میں متنبہ کیا گیا ہے کہ افغان طالبان تحریک امریکی افواج کے انخلا کے بعد عنقریب ممکنہ طور پر ملک کے بڑے حصے کا کنٹرول سنبھال لے گی۔ان تمام رپورٹس اور خبروں سے واضح ہوجاتا ہے کہ امریکی حکام فوجی انخلاء کے بعد ہونے والی صورتحال سے بخوبی آگاہ تھے کہ آگے چل کر افغانستان میں افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان جنگی ماحول پیدا ہوسکتا ہے جو اس قدر خطرناک حدتک جائے گا جو خانہ جنگی کی صورت میں سامنے آئے گا ۔

مگر امریکہ سمیت عالمی طاقتوں نے جو کردار انخلاء کے دوران ادا کرنا تھا اس حوالے سے انہوں نے مکمل طور پر خود کو الگ تھلگ رکھا، یہ نہیں کہاجاسکتا کہ غفلت برتی گئی یا اس صورتحال کا انہیں اندازہ نہیں تھا۔بہرحال اب افغان حکومت اور افغان طالبان ایک دوسرے کی بات سننے کو تیار نہیں، جبکہ میز پر بیٹھنے کے باوجود بھی بامقصدونتیجہ خیز مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل نہ نکلنے کی وجہ بھی دونوں فریقین کی جانب سے اپنے اپنے شرائط ہیں اور دونوں لچک کا مظاہرہ نہیں کررہے جس کا نتیجہ جنگ کی صورت میں سامنے آرہاہے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو افغانستان میں بڑی خانہ جنگی کے امکان کو رد نہیں کیاجاسکتا جو کہ بڑی تباہی کے طور پر سامنے آئے گی۔اب دیکھنا یہ ہے کہ افغانستان کے وسیع ترمفاد میں افغانستان کے اپنے اسٹیک ہولڈرز کس حد تک سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے شرائط پر بضد ہونے کی بجائے مصالحت پسندی کا راستہ اپناتے ہوئے افغانستان کو مزید خون ریزی سے بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کرینگے۔