|

وقتِ اشاعت :   July 29 – 2021

پاکستان میں اس وقت لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین موجود ہیں جو سرد جنگ اور نائن الیون کے بعد بڑی تعداد میں یہاں آئے اور عرصہ دراز سے ملک کے مختلف حصوں میں رہائش پذیر ہیں جو کہ ملکی معیشت پر بڑا بوجھ ہیں۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر جس طرح سے حالات بدل رہے ہیں اگر خدانخواستہ افغانستان میں خانہ جنگی ہوئی تو اس کا سب سے زیادہ بوجھ پاکستان پر آئے گا خاص کر افغان مہاجرین کی آمد کی صورت میں بڑے چیلنجز کا سامناہوگا اسی لئے یہاں کی سیاسی جماعتیں ہر وقت مہاجرین کی جلد باعزت وطن واپسی کا مطالبہ کرتی ر ہی ہیں اور اس میں بلوچستان پیش پیش رہا ہے کیونکہ بلوچستان میں مہاجرین کی تعداد ملک کے دیگرحصوں سے بہت زیادہ ہے۔

مہاجرین کی موجودگی سے بلوچستان کی آبادی اور معیشت پر بہت ہی گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں بلوچستان کی اپنی آبادی بہت کم ہے مگر مہاجرین کی وجہ سے یہاں کی آبادی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے، افغانستان میں جنگی صورتحال سے مہاجرین کے ساتھ دیگر مسائل بھی درپیش ہوں گے جس کا اظہار بارہا کیاجاتارہا ہے۔ گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے غیر ملکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان مزید افغان مہاجرین کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں سول وار ہوتی ہے تو یہ بہت بھیانک ہو گی جبکہ افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں اور سیاسی تصفیہ ہی مسئلہ افغانستان کا حل ہے۔ امریکہ افغانستان کا فوجی حل نکالنے میں ناکام رہا۔

نائن الیون کے بعد امریکہ کا ساتھ دیا تو پاکستان میں خودکش حملے بڑھ گئے۔ امریکہ اور نیٹو مذاکرات کی صلاحیت کھو چکے ہیں جبکہ اب طالبان افغانستان میں پیش قدمی کر رہے ہیں لیکن پاکستان افغانستان میں امن کے لیے سہولت کاری کر رہا ہے۔ افغانستان میں ایسی حکومت ہونی چاہیے جو تمام فریقین کے لیے قابل قبول ہو اور اگر انتخابات میں تاخیر ہوتی تو طالبان بھی اس کا حصہ بن سکتے تھے۔ اشرف غنی نے صدر بننے کے بعد طالبان سے مذاکرات نہیں کیے۔عمران خان نے کہا کہ امریکہ کو اڈے دینے سے پاکستان دہشت گردی کا نشانہ بنے گا جبکہ طالبان خود کو افغانستان میں فاتح سمجھ رہے ہیں۔ امریکی امداد ہمارے نقصان سے بہت کم ہے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینے سے ہمارا 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 70 ہزار جانیں دیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ جہادی بھیجنے سے متعلق افغانستان ثبوت پیش نہیں کرتا۔ طالبان کو محفوظ ٹھکانے دینے کے ثبوت کہاں ہیں؟ اور افغانستان میں ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیا جاتا رہا لیکن ہم امن کے شراکت دار ہیں کسی تنازع کا حصہ نہیں بنیں گے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں حالات خراب ہوئے تو اس کا اثر پاکستان پر پڑے گا اور اگر خانہ جنگی ہوئی تو افغان مہاجرین پاکستان کا رخ کریں گے لیکن پاکستان اب مزید مہاجرین کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا اور ہم عرصہ سے کہہ رہے ہیں کہ افغان مہاجرین کو واپس بھجوایا جائے۔

بہرحال افغان مہاجرین کی واپسی پُرامن ماحول میں ہونا تھی مگر اب مشکل صورتحال پیدا ہوچکی ہے خدشہ ہے کہ جس طرح سے طالبان تیزی سے پیش قدمی کرر ہے ہیں اس سے مزید افغان مہاجرین کی پاکستان آمد کا خطرہ ہے لہٰذا سرحدوں کی کڑی نگرانی کرتے ہوئے غیر قانونی طورپر مہاجرین کو ملک میں داخل نہ ہونے دیاجائے اور افغانستان میں امن کیلئے سب کو مشترکہ طور پر کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک پر منفی اثرات نہ پڑیں۔