|

وقتِ اشاعت :   July 30 – 2021

کوئٹہ: بلوچستان ہائیکورٹ نے خواتین کو وراثت میں حق نہ دینے پر فوجداری مقدمے کا حکم دے دیا، تفصیلات کے مطابق بلوچستان ہائیکورٹ نے خواتین کے حق سے متعلق آئینی درخواست پر تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے حکم میں کہا ہے کہ وراثت سے محروم، زبردستی دستبرداری پر ریونیو آفیسر فوجداری مقدمے کا پابند ہوگا،عدالت نے قرار دیا کہ خواتین سمیت تمام حق داروں کے نام منتقل کئے بغیروراثت تقسیم نہیں کی جاسکتی۔

خواتین کا نام چھپانے یانکالنے پروراثت کی تقسیم کا عمل عدالت میں جائے بغیرکالعدم ہوگا کسی خاتون کو شادی یا کسی تحفے، رقم کی بنیاد پر جائیداد کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا،عدالت نے ڈی سی اور محکمہ ریونیو کووراثت کی سیٹبلشمنٹ سے قبل کتابچے تقسیم کرنے کا حکم دیتے ہوئے ڈی جی نادرا کو ریونیو دفاتر میں آن کال ڈیسک قائم کرنے کرنے کی ہدایت کر دی،عدالتی حکم میں کہا گی۔

ا کہ نادرا کا ڈیسک محکمہ ریونیو کومحروم کاشجرہ نسب فراہم کرنیکاپابند ہوگا،جب کہ شجرہ نسب کے بروقت اجرا کیلئے مل کر طریقہ کار طے کیا جائے،سول عدالتوں کو وراثت سے متعلق زیر التوا مقدمات 3ماہ کے اندر نمٹانے کے احکامات جاری کرتے ہوئے پابند بنایا گیا کہ آج کے بعد وراثت سے متعلق کیس کا 6ماہ کے اندرفیصلہ سنا دیا جائے۔

تفصیلات کے مطابقچیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جناب جسٹس جمال خان مندوخیل اور جناب جسٹس محمد کامران خان ملاخیل پر مشتمل دو رکنی بینچ نے خواتین کو حق وراثت اور صوبے میں جاری سیٹلمنٹ کے عمل میں انھیں نظر انداز و محروم رکھنے سے متعلق ایڈوکیٹ محمد ساجد ترین کی جانب سے دائر پٹیشن میں فیصلہ سناتے ہوئے ریمارکس دیتے ہوئے۔

کہا کہ قبل اس کے کہ ہم فیصلے کی طرف جائیں یہ بات ہمیں نوٹ کر لینی چاہیے کہ ہم اکیسویں صدی کا حصہ اور تعلیم یافتہ ہونے کا دعوی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی تقریبا ہر فرد نے خواتین شیئر ہولڈرز کو ان کے حق وراثت سے محروم رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے اب وقت آگیا ہے کہ ہم ہر فرد کے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے اس عمل کی حوصلہ شکنی کریں اور اسے روکیں جو بحث خواتین کے حق وراثت پر عدالت عالیہ کے سامنے ہوئی ہے معزز عدالت اس کی روشنی میں پٹیشن کو قبول کرتے ہوئے۔

سرکاری جواب دہندگان کو درج ذیل شرائط و ضوابط کا حکم دیتی ہے ۔ خواتین کے حقوق کا تحفظ قرآن مجید میں کیا گیا ہے جس سے انکار کسی صورت نہیں کیا جاسکتا لہذا خواتین اپنے متوفی کی میراث میں حقدار ہیں ۔وراثت پہلے تمام شیئر ہولڈرز بشمول خواتین کے نام منتقل کی جائے اس کے بعد انتقال کی کاروائی کی جائے گی اور اگر کوئی بھی جائیداد خواتین شیئر ہولڈرز کا نام چھپا یا نکال کر منتقل کی گئی تو انتقال کا سارا عمل کا لعدم ہو جائے۔

گا اور سول دائرہ کار سے وابستہ عدالت کو اپروچ کیے بغیر ذمہ دار فرد کا یہ سارا عمل پلٹا دیا جائے۔ کسی بھی خاتون حصہ دار کو اس کے حق سے دستبرداری نامہ/ تحفے،دلہن کا تحفہ۔ نگہداشت الاونس کسی مغلوط معاوضے میں کیش کی ادائیگی،جبر یا کسی بھی ذریعے سے چاہے وہ کتنا بڑا کام کیوں نہ ہو،کے نام پر اس کے متوفی مورث کی جائیداد سے محروم نہیں کیا جاسکتا اگر ان وجوہات یا کسی بھی طرح خاتون وارث کو میراث سے محروم کیا گیا تو انتقال کا وہ سارا عمل کالعدم ہو جائے گا۔

صوبہ بھر میں کہیں بھی سیٹلمنٹ کا عمل اس وقت تک نہیں کیا جائے گا جب تک یہ یقین دہانی نہ ہو جائے کہ خاتون وارثوں کے نام اس میں شامل کر لیے گئے ہیں اور اگر کسی خاندان میں کوئی خاتون نہیں ہے تو ریونیو حکام متعلقہ تفصیلات میں خاص طور پر اس کا ذکر کریں گے۔ سیکریٹری/ سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو اس ضمن میں یہ بات نہ صرف یقینی بنائیں گے بلکہ اپنے ماتحت ریونیو /سیٹلمنٹ اہل کاران کو بھی اس کی ہدایت کریں گے۔

کہ کسی بھی علاقے میں سیٹلمنٹ آپریشن شروع کرنیسے قبل مطلوبہ علاقے کی لوکل زبان اور اردو میں کتابچہ/ ہینڈبلز۔ گرلز اسکولوں، کالجز۔ ہسپتالوں میں لیڈی کانسٹیبل یا لیڈی ٹیچر یا متعلقہ بنیادی صحت مرکز ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کی نرس یا میڈ وائف کے ذریعے تقسیم کرائیں گے ۔ سیٹلمنٹ والے علاقوں کے متعلقہ ڈپٹی کمشنرز کو بھی حکم دیا جائے۔

کہ وہ ان علاقوں کی نہ صرف مساجد مدرسوں میں لوڈ سپیکرز کے ذریعے اعلان کروائے بلکہ سیٹلمنٹ آپریشن والے مقررہ علاقوں کی حدود میں نقاروں کے ذریعے گلیوں/ قرب و جوار میں بھی اعلانات کروائے ۔ ڈی جی نادرا کو بھی حکم دیا جاتا ہے کہ وہ متعلقہ ضلع /تحصیل کے ریونیو آفس میں رجوع کرنے/ درخواست دینے والوں کے لیے خصوصی ڈیسک قائم کرے جو اس متوفی مورث کا شجرہ نسب فراہم کرے گا۔

جس کی جائداد تقسیم ہونی ہے یا پھر سیٹلمنٹ آپریشن کے دوران مرحوم اور اس کی جائیداد میں تمام قانونی وارثین چاہے مرد ہو یا خواتین ان کے ناموں کی شمولیت یقینی بنائی جائے گی ۔ ڈی جی نادراکو بھی یہ حکم دیا گیا کہ وہ رجسٹریشن ٹریک سسٹم(RTS) کے ذریعے قانونی وارث خاتون کی شادی کے بعد اس کے شوہر کے شجرہ نسب میں نام کی شمولیت یقینی بنائے اور خواتین کو ان کے قانونی حق سے کسی بھی طرح محروم رکھنے سے بچانے کے لیے والد کی طرف سے بھی شجرہ نسب معلوم کرے ۔

سیکرٹری/ ممبر بورڈ آف کو حکم دیا گیا کہ وہ ریونیو آفس میں خصوصی ڈیسک کے قیام تک شجرہ نسب کی فراہمی میں غیر ضروری تاخیر سے بچنے کے لیے ڈی جی نادرا کے مکمل میکانزم کی تشکیل کیلئے اجلاس بلوائے اور میکنیزم کی تشکیل تک اس فیصلے پر عملدرآمد کے لیے عبوری طریقہ کار وضع کریں ۔سکریٹری/ممبر بورڈ آف ریونیو کو مزید حکم دیا گیا۔

کہ وہ ایک شکایت سیل ایڈیشنل سیکرٹری رینک کے افسر کی نگرانی میں ریونیو آفس میں قائم کریں گے تاکہ سیٹلمنٹ آپریشن و وراثت کے عمل میں غیر ضروری تاخیر سے بچا جا سکے اور اس کے ذریعے غیر قانونی مراعت کے امکان کو بھی رد کیا جا سکے ۔ممبر بورڈ آف ریونیو اور اس کے ماتحت عملہ کو سختی سیحکم دیا جاتا ہے۔

کہ قانونی وارث کو محروم رکھنے کی شکایت موصول ہوئی تو ایسے غلط کام کرنے والوں کے خلافPPC 498A کے تحت کیس درج کرکے قانونی کارروائی شروع کی جائے گی۔ سول کورٹ کو بھی حکم دیا جاتا ہے کہ وراثت سے متعلق دائر مقدمات جو کہ زیرالتوا ہیں ان کا فیصلہ اس حکم کے موصول ہونے کے تین ماہ کے اندر اندر کر دیا جائے یا پھر التوا کیسز کے لئے یہ مدت زیادہ سے زیادہ 6 ماہ سے زائد نہیں ہونی چاہیے۔

جب کہ اگر کوئی نیا مقدمہ قائم ہوتا ہے تو اسے بطور وراثت کا مقدمہ/اپیل/ رویژن/ پٹیشن درج کیا جائے اور اس کا فیصلہ تین ماہ میں بغیر مزید وقت دیے کر دیا جائے اسی طرح ایپلٹ کورٹ اور رویژن کورٹ میں زیر التواتمام درخواستوں کو ترجیحاً تو ایک ماہ میں نمٹا دیا جائے لیکن تاخیر کی صورت میں درخواست کو دو ماہ سے زائد التواء میں نہ رکھا جائے عدالت عالیہ کے انسپکشن ٹیم کا ممبر ان احکامات پر من و عن عمل درآمد کے لئے سرکلر جاری کریں ۔

عدالت عالیہ کے رجسٹرار کو بھی حکم دیا جاتا ہے کہ اگر کوئی بھی شکایت متاثرہ شخص کی جانب سے کسی ریونیو سیٹلمنٹ اہلکار یا کسی بھی غیر سرکاری فرد کی بابت موصول ہوتی ہے کہ اس نے وراثت یا سیٹلمنٹ میں قانونی خاتون وارث کو محروم رکھا ہے تو درخواست ہمارے چیمبر میں غور کے لیے پیش کی جائے اور اس پر مناسب حکم دیے جانے کے بعد۔

اسے فورا سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو کی اطلاع اور عملدرآمد کے لیے بھجوایا جائے۔ کوئی بھی درخواست/ شکایت جو اس فیصلے سے متعلق درج ہوتی ہے تو اسے ایگزیکیوشن درخواست کے طور پر لیا جائے گا جو بعد ازاں سیول متفرقہ درخواست کے طور پر یا تو سی پی سی1908 کے تحت چلائی جائے گی یا توہین عدالت ایکٹ دو ہزار تین کے تحت اور بسیکشن 200 Cr PC کے تحت کریمنل کمپلینٹ کے طور پر چلائی جائے گی۔

قبل ازیں جناب جسٹس محمد کامران خان ملاخیل نے کیس کے حقائق سے متعلق ریمارکس دیتے ہوئے بتایا کہ درخواست گزار جو کہ ایک وکیل سیاسی کارکن اور ایک سوشل ورکر بھی ہے وہ اس درخواست کے ذریعے عوامی مفاد میں اپنی درخواست کے حق میں فیصلہ چاہتے ہیں اوراس بنیاد پر کہ عموما پورے ملک اور خصوصا صوبے بلوچستان میں خواتین ورثا کے حق بارے قرآنی احکامات اور نہ ہی آئین پاکستان میں درج قوانین پر عمل کیا جاتا ہے۔

صوبہ بلوچستان کے پیچیدہ قبائلی نظام میں خواتین کو ان کے جائز قانونی وراثت سے محروم رکھا گیا ہے جب بھی اس کے متوفی مورث کی جائیداد کی تقسیم ہوئی ہے تو مستورات کو بلا کسی جائز وجہ سے یا تو نظر انداز کرکے یا پھر وارثین کی فہرست سے ان کا نام نکال کر انہیں محروم رکھا گیا ہے اور اس طرح کے کیس میں یہ چیز بھی دیکھی گئی ہے۔

کہ خاتون قانونی وارث کو تحفے یا دستبرداری نامہ کا بہانہ بناکر محروم رکھا گیا ہے اسی طرح یہ بہانہ بنا کر ان خواتین کو محروم رکھا گیا ہے کہ ان کا قانونی حصہ دولہن کے تحفوں یا نگہداشت الاؤنس کی شکل میں پہلے ہی ادا کیا جا چکا ہے جب کہ قبائلی نظام میں مرد(بیٹے) کو حقیقی جانشین گردانا جاتا ہے اس لیے شجرہ نسب میں خواتین کا نام جانشین کے طور پر شامل نہیں ہوتا۔

کیونکہ ایسا کرنا غیرت کا سوال بنتا ہے یہ معاملات وراثت کے انتقال کے وقت خواتین کو ان کے حقوق سے محرومی کا موجب بنتے ہیں مزید یہ کہ اگر کوئی خاتون اپنے حق کے لئے دعوی کرتی ہے تو اس کے مرد رشتے دار مشتعل ہوجاتے ہیں اور جبر کا سہارا لیتے ہوئے ناخوشگوار واقعہ/جرم کا موجب بنتے ہیں جیسا کہ بعض اوقات ان کی زبردستی شادیاں کر دی جاتی ہیں۔

جبری گمشدگیاں یا پھر جبرا انہیں شادی سے روک دیا جاتا ہے صوبہ بلوچستان میں جاری۔ سٹلمنٹ آپریشن کے پس منظر میں بھی یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ سیٹلمنٹ/ ریونیو اہلکاران نے متعلقہ خاندانوں کے مردوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے ان خاندانوں سے خواتین قانونی وارثین کے بارے پوچھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔

درخواست گزار کی جانب سے اس حوالے سے استدعا کی گئی کہ بلوچستان بورڈ آف ریونیو کو حکم جاری کیا جائے کہ وہ سیٹلمنٹ کی تکمیل اور انتقال کے اندراجات کی تصدیق کے بعد ریونیو ریکارڈ مرتب کرنے کے لیے جامع میکنزم تشکیل دے اور خاص طور پر اس میں یہ امر یقینی بنایا جائے کہ کسی متوفی (دادا دادی نانا نانی) کے جائز قانونی خاتون وارث کا نام تمام منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کے ریکارڈ میں شامل ہوں در خواست گزار کی جانب سے یہ بھی استدعا کی گئی۔

کہ نادرا حکام کو بھی حکم دیا جائے کہ وہ متعلقہ فیملی کے کسی بھی متوفی مورث کے ریکارڈ کی فراہمی یقینی بنانے میں سیٹلمنٹ افسران و اہلکاران کی معاونت کرے معزز عدالت نے مزید بتایا کہ درخواست گزار کا موقف ہے کہ خواتین کو محروم رکھنے کا متذکرہ سارا عمل خلاف شریعہ خلاف قرآن ہے خواتین کے ساتھ قبل از اسلام سا رویہ رکھا جا رہا ہے۔

کہ نہ تو انھیں انسان سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی ان کے حقوق دیے جاتے ہیں لہذا اس کی درخواست پر متعلقہ اہلکار ان کو احکامات دیئے جائیں کہ انتقال/ سیٹلمنٹ کا پروسیس خواتین وارثین کے نام ریونیو ریکارڈ میں شامل کئے بغیر سر انجام نہ دیا جائے معزز عدالت نے دوسری جانب ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل جن کی معاونت سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو قمر مسعود ماہر قانون دان جاوید اقبال اور سیکریٹری (جوڈیشل اینڈانکوائری) محکمہ بورڈ آف ریونیو کر رہے تھے کا موقف سامنے لاتے ہوئے بتایا۔

کہ انہوں نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ خواتین کو ان کے متوفی مورث کی وراثت کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے ان کا کہنا تھا کہ محکمہ ریونیو نے سیٹلمنٹ کے عمل کی شفافیت کے لیے تمام ممکنہ اقدامات اٹھائے ہیں ان کی جانب سے عدالت کو رپورٹ بھی پیش کی گئی جس میں ریونیو اہلکاران کو جائیداد کی منتقلی کے لئے چند مشوروں /تجاویز کے ساتھ مجوزہ طریقہ کار اپنانے کے لیے کہا گیا ہے۔

معزز عدالت نے درخواست سے متعلق اپنے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بلاشبہ وراثت میں خواتین کے حقوق کا تحفظ نہ صرف اسلام نے کیا ہے بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973 کا آئین بھی ان کے حقوق کی ضمانت فراہم کرتا ہے لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ مردوں کیاس معاشرے میں غصب کئے گئے ان حقوق کا تعین کرنے کے بجائے۔

ان کے حقوق کی منتقلی کے لیے بہت سے کیسز عدالتوں میں پیش کئے جاتے ہیں جبکہ قانونی وارث کے حق کا تعین اللہ تعالی نے قرآن مجید کی سورۃ نساء کی آیت 1،2،7 گیارہ اور بارہ میں کر دیا ہے اسی طرح ہر قانونی وارث کے حقوق وراثت کے قانون میں متعین ہے لہذا متوفی کے جائز وارثین کو کوئی محروم نہیں رکھ سکتا اور نہ ہی ان کے حصے میں کٹوتی یا اسے کسی شے سے تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

ہم بحیثیت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری ہونے کے ناطے وراثت میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے اسلامی اصولوں کی پیروی میں تذبذب کا شکار ہیں یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ ایسے کئی مقدمات ان خاندانوں کی جانب سے دائر کیے جا چکے ہیں جنہیں وراثت میں حق سے محروم رکھا گیا ہے اور معزز عدالت عظمی پاکستان نے اس ضمن میں کئی فیصلے بھی صادر فرمائے ہیں۔

لیکن ان سب کے باوجود ہمیں اب بھی ان مسائل ہی کا سامنا ہے جو بڑی بدقسمتی کی بات ہے معزز عدالت عظمی کی جانب سے فرحان اسلم و دیگر بخلاف نزباشاہین و دیگر (2021SCMR179) کا کیس ہو یا مس بریخنا بخلاف فیض اللہ خان و دیگر (2020SCMR1618)کا کیس ہو یا اسی طرح غلام علی و دیگر بخلاف غلام سرور نقوی و دیگر(PLD1900Supreme Court) کا کیس ہو معزز سپریم کورٹ نے وراثت کے۔

سوال اور خواتین وارثین کے حقوق کو پوری طرح بیان کیا ہے معزز بینچ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ خواتین وارثین کو متوفی کی جائیداد سے بجز جائزو شرعی حق دار ہونے کے باوجود محروم رکھنے کی کئی وجوہات ہیں اور جہاں کہیں خواتین کو یہ حقوق دیئے بھی جاتے ہیں تو وہ خواتین کی توقیر اور حق کے طور پر نہیں بلکہ مردوں کی بالادستی کے اظہار کے طور پر بطور احسان دیے جاتے ہیں۔

خواتین کی جانب سے اپنے حقوق کے لئے دباؤ نہ ڈالنے کی کئی وجوہات ہیں جن میں معاشی طور پر مردوں پر انحصار سماجی بندھن کے ٹوٹنے کا خوف اور خاندان سے جھگڑا مول لینے کا ڈر اس کے ساتھ ساتھ مناسب اسلامی تعلیمات کی کمی شامل ہے مردوں کے اس معاشرے کا یہ رویہ اور اللہ تعالی کے احکامات سے روگردانی ہمیں قبل از اسلام کے عہد میں لے جا چکی ہے۔

جہاں عرب کا کلچر اور معیار مرد کی بالادستی پر قائم تھا اور خواتین کوجائیداد میں حقوق دینے سمیت کسی بھی حوالے میں قابل توجہ نہیں سمجھا جاتا تھا خوا تین اپنے والد یا شوہر کی جائیداد میں حق دار نہیں تھی عربوں کا اصول تھا کہ صرف وہی وارث ہوگا جو گھڑسواری اور جنگ کے میدان میں لڑ سکتا ہے ظاہر ہے اس وقت یہ اصول خواتین وارثین کی بجائے مردوں کو فائدہ پہنچاتے تھے۔

اسی طرح خواتین کو جب کہ متوفی کے وارثین میں سے صرف بیوہ حیات ہوتی اسے مہر کے نام پر وراثت سے محروم رکھا جاتا تھا اسلام عورت کے مقام کا احساس کرتے ہوئے اسے زندہ رہنے تعلیم حاصل کرنے، شادی کرنے۔مہر۔ نگہداشت اور طلاق وغیرہ جیسے مختلف حقوق فراہم کرتا ہے انہی میں سے ایک حق وراثت کا بھی ہے اسلام مرد و عورت دونوں کو متوفی مورث کا وارث اور جانشین گردانتا ہے البتہ وراثت کے لیے ان دونوں کا حصہ مختلف مقرر کیا گیا ہے۔

سورہ نساء کی دوسری آیات 11-12 اور176 میں بیوی, ماں, بہن اور بیٹی کا حصہ مختلف صورتوں میں واضح بیان کر دیا گیا ہے اسی طرح حضرت محمد علیہ السلام کی احادیث و روایات میں بھی اسکا ذکر موجود ہے جن میں خواتین کی جائیداد میں حصہ دینیکے لئے سختی سے کہا گیا ہے اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے جو خواتین کو اسلامی معاشرے میں سماجی وقار ناصرف فراہم کرتا ہے۔

بلکہ اسے یقینی بھی بناتا ہے اگرچہ اسلام میں خواتین ورثا کے لیے واضح احکامات ہیں لیکن قرآن پاک کے احکامات اور وراثت کے قانون پر عمل پیرا ہونے کی بجائے ہم رسم و رواجوں کی پیروی کرتے ہیں اور انہیں روایتی اقدار کو فوقیت دیتے ہیں جس سے ایک یتیم کا حق غصب کرنے اور خواتین کو وراثت سے محروم رکھنے کی سوچ نے جنم لیا ہے کئی مواقعوں پر ہم دیکھتے ہیں۔

کہ بہن اور بیٹی کے تو حق وراثت سے انکار کیا جاتا ہے لیکن اپنی والدہ کی وراثت کے حق کے لئے اس کے بھائیوں سے مطالبہ کیا جاتا ہے جو کہ مردوں کی ذہنیت کے دوغلے پن کو ظاہر کرتا ہے ملک و صوبے کے اکثر لوگ وراثت میں خواتین کے حقوق سے اچھی طرح آگاہ ہیں لیکن وہ وراثت میں عورت کا جائز حصہ دینے پر تیار نہیں اور خواتین کو یہ حق کئی بار قانونی طریقے سے لینا پڑا ہے یہ بھی کلنگ کا ٹیکا ہے۔

کہ والدین اپنی زندگی میں اپنی جائیداد بیٹوں کے نام کر کے بچیوں و خواتین کو وراثت سے محروم کردیتے ہیں تاکہ مستقبل میں بچیاں مطالبہ نہ کر سکے اور جب کبھی متاثرہ خاتون اس حق کے لیے کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے تو اسے نہ صرف نافرمان سمجھا جاتا ہے بلکہ غیر ضروری قانونی کارروائی میں دکھیل دیا جاتا ہے جو برسوں چلتی رہتی ہے یہ بات یاد رکھنی چاہیے۔

کہ وہ جو وراثت کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں وہ دوسروں کی جائیداد اور حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والے ڈاکو ہیں اور ساتھ ہی اسلامی شریعت سے انحراف کے سزاوار بھی ہیں طاقت کا سرچشمہ اللہ تعالی ہیں جس نے وراثت کے قانون کی خلاف ورزی پر سخت تنبیہ کی ہے یہاں خواتین ایک اور صورت حال سے بھی دوچار ہیں ان کی حیثیت کو خاندان میں ایک وفاشعار اور بھائیوں باپ اور خاندان کے دیگر مرد ممبران سے محبت کا دم بھرنے والی عورت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

اور اس بنا پر ان کو جائیداد میں ان کے حصے سے دستبردار ہونے کے لیے قائل کیا جاتا ہے ہے اور اس طرح ان کی مرضی اور بغیر ناگواری کا تاثر پیدا کئے ان کے حق سے محروم کردیا جاتا ہے حالانکہ خواتین ورثا کو دستبرداری کا حق حاصل ہے لیکن یہ فیصلہ جائیداد ان کے نام پر منتقل ہونے کے بعد کیا جا سکتا ہے عدالت نے اپنے ریمارکس میں مزید بتایا کہ خواتین کو وراثت کے حق سے محرومی جیسے مسائل کو کم کرنے کے لیے۔

پاکستان پینل کوڈ کے کریمنل قانون میں سیکش 498،A کے ذریعے ترمیم کی گئی ہے جس کے مطابق ”سیکشن 498A کسی بھی کا خاتون کو جائیداد کے حق سے محروم رکھنے سے روکتا ہے جو کوئی بھی دھوکہ دہی یا غیر قانونی طریقے سے جان نشینی کے وقت کسی بھی خاتون کو منقولہ غیرمنقولہ جائیداد سے محروم رکھتا ہے۔

تو اسے یا تو زیادہ سے زیادہ دس سال قید کی سزا جو کم سے کم بھی پانچ سال سے کم نہیں ہوگی یا دس لاکھ جرمانے یا دونوں کی صورت میں دی جائے گی” اس سیکشن کی ترمیم میں جو حکمت کار فرما ہے وہ یہ تھی کہ کسی بھی خاتون کو اس کے وراثت کے حق سے محروم نہ کیا جاسکے خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کریمنل کاروائی یقیناً ایک اچھا شگون ہے۔

لیکن مردوں کی بالادستی والے معاشرے میں ایک خاتون کے لیے یہ آسان نہیں ہے کہ وہ پولیس سٹیشن جاکر اپنے فیملی ممبر مرد کے خلاف کریمنل کیس درج کروائے اس معاملے میں حکومت کو متوفی کی جائیداد کی ورثا میں تقسیم کی ذمہ داری لینی چاہیے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دلوانی چاہیے جبکہ سماجی آگاہی کے لیے۔

پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا اور خاص طور پر علماء اسکالرز کو آگاہی مہم کا حصہ بنانا چاہیے تاکہ وہ نہ صرف خواتین بلکہ مردوں میں بھی اسلامی و اللہ کے احکامات کے مطابق متوفی کی جائیداد کے جائز حقوق کے حوالے سے آگاہی پیدا کریں مردوں کی اسلامی احکامات سے لاعلمی بھی توجہ طلب ہے کیونکہ اسلامی اصول و احکامات باقاعدگء سے نہیں سکھائے و پڑھائے جاتے ہیں۔

لہذا حکومت کو آگاہی کے لیے دوسری ضروری اقدامات کے ساتھ یہ مثبت کوشش بھی کرنی چاہیے کہ وہ اسلامی احکامات خصوصا جو خواتین کے حقوق سے متعلق ہیں انہیں اسکولز و کالجز اور یونیورسٹیوں کی سطح پر نصاب میں شامل کرکے نصاب اپ گریڈ کرے۔ بحث کے دوران ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل و معاونین نے اس ضمن میں کچھ مجوزہ سفارشات بھی عدالت کے سامنے پیش کی معزز عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا۔

کہ کہیں مواقع پر یہ بات نوٹ کی گئی ہے کہ ریونیو حکام اور اہلکاران ایسے پروسیس کو خواہ مخواہ اور بلاوجہ طول دیتے ہیں اور کچھ غیر قانونی مراعت کے چکر میں رہتے ہیں جو کہ نہایت بد قسمتی کی بات ہے یہ امر فکر انگیز ہے کہ ان کی مانگ پوری نہ ہونے پر وہ ایسی درخواستوں کو قابل توجہ نہیں سمجھتے لیکن یہ عدالت جس کے سامنے یہ مسئلہ پیش کیا گیا ہے۔

ہم ایسے کسی عمل کی اجازت نہیں دیں گے اور نہ ہی کسی ایسے ذمہ دار فرد کو معاف کر دیا جائے گا کہ جو وراثت کے عمل میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کرے گا ہم ناصرف توقع کرتے ہیں بلکہ سیکرٹری بورڈ آف ریونیو کو حکم دیا جاتا ہے کہ ایسے معاملات کے خاتمے کے لئے ایک اسپیشل شکایت سیل قائم کیا جائے اور اگر ایسا نہیں ہوتا اور کسی بھی فرد واحد کو ریونیو حکام کے خلاف کوئی شکایت ہوتی ہے۔

تو وہ عدالت عالیہ کے رجسٹرار تک رسائی حاصل کر سکتا ہے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مذکورہ وجوہات کے علاوہ ایک اور وجہ بھی ہے جو خواتین کو حصہ فراہم کرنے میں مانع ہے اور وہ وجہ خواتین ورثا سے متعلق کیسز کے فیصلوں میں غیرمعمولی تاخیر ہے معزز سپریم کورٹ نے فرحان اسلم سپرا کے کیس میں بھی اس امر پر واضح احکامات دیے ہیں جب کہ عدالت عالیہ نے بھی 28 ستمبر 2020۔ 2011RFA No.40 کے فیصلے میں اس ضمن میں واضح احکامات دیے۔

لیکن یہ بات پھر بھی ہمارے نوٹس میں لائی گئی ہے کہ اس عدالت کے واضح احکامات اور انسپیکشن برانچ کے سرکلرز کے باوجود ماتحت عدالتیں عدالت عالیہ کے احکامات ماننے میں اور کیس کا جلد فیصلہ کرنے میں ناکام رہی ہیں لہذا ایک بار پھر انہیں حکم دیا جاتا ہے کہ وراثت سے متعلق تمام کیسز ماتحت عدالتیں وراثتی مقدمہ/ اپیل اور رویژن کے نام سے علیحدہ ر جسٹرڈ کریں گی۔

ان مقدمات کو ترجیحاً جلد از جلد 3 ماہ میں اور زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کے عرصے میں نمٹایا جائے جبکہ ان کیسز پر اپیل/ رویژن پر ترجیحا ایک ماہ اور زیادہ سے زیادہ دو ماہ میں فیصلہ ہوجانا چاہیے عدالت عالیہ میں زیرالتوا ایسی تمام پٹیشنز /رویژنز اور اپیلوں پر انچارج جوڈیشل برانچ کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ ان کی فہرست مرتب کرکے بنچز میں شنوائی کے لیے مقرر کرے۔

تازہ درخواستوں/ رویژنزاور ائینی پٹیشنز کو بھی وراثتی اپیل /رویژن پٹیشن کے نام سے رجسٹر کیا جائے اور امید ہے کہ ایسے کیس کا فیصلہ بھی کم سے کم وقت میں کر دیا جائے گا عدالت عالیہ نے فیصلے کی کاپیاں رجسٹرار اور ممبر انسپیکشن ٹیم عدالت عالیہ کو آگے ماتحت سیول، اپیلٹ اور رویژنل کورٹس کو منتقل کرنے، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو کو اس حکم کے ساتھ۔

کہ وہ یہ کاپیاں تمام کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کولیکٹرز، تحصیلدار ریونیو/سٹیل منٹ آفیسرز کو منتقل کریں گے اسی طرح چیئرمین نادرا اور ریجنل ڈائریکٹر جنرل نادرا آفس بلوچستان، پرنسپل سیکرٹری وزیراعلی بلوچستان، وائس چانسلرز پبلک سیکٹر یونیورسٹیز,ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشن بلوچستان اور ڈائریکٹر جنرل پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کو اطلاع و عمل درآمد کے لئے۔

فراہم کرنے کا حکم دیا مزید یہ کہ ڈی جی پی آر او ڈی جی پیمرا کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اس فیصلے کی وسیع نشرواشاعت تمام اخبارات اور میڈیا چینل میں یقینی بنائیں گے سیکرٹری سکولز اور کالجز اور وائس چانسلر اس فیصلے کی کاپیاں تمام گرلز اسکولوں، کالجز اور یونیورسٹیوں میں عوام کی اطلاع اور خصوصا خواتین کی آگاہی کے لئے تقسیم کریں گے۔