کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی نے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء ملک عبید اللہ کاسی ،کمسن بچے قدیر سمیت صوبے میں اغواء برائے تاوان اور قتل کے واقعات کیخلاف مشترکہ مذمتی قرار داد منظور کرلی، وزیرداخلہ بلوچستان میر ضیاء لانگو کا کہنا ہے کہ ملک عبیداللہ کاسی کے اغواء کاروں میں سے ایک کو گرفتار کرلیا گیا ہے جلد ہی گروہ کے سرغنہ تک پہنچ جائیں گے۔
پشتونخواء ملی عوامی پارٹی نے عثمان کاکڑ کی موت کی وجوہات جاننے کے لئے خود کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا اور پھر نہ ثبوت فراہم کئے، بیان دیا اور نہ ہی کمیشن سے تعاون کیا جس کے بعد کمیشن ختم کردیا گیا ہے ۔ جمعہ کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں مشترکہ مذمتی قرار داد پیش کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کی رکن شاہینہ کاکڑ نے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے رکن ملک عبیداللہ کاسی جنہیں 26جون2021ء کو نامعلوم مسلح اغواء کاروں نے کلی کتیر کچلاک سے گن پوائنٹ پر اغواء کیا۔
تھا پانچ اگست کو تاوان نہ ملنے پر اغواء کاروں کی جانب سے انہیں انتہائی بے دردی سے شہید کیا گیا ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔ یہ ایوان موصوف کی شہادت کی نہ صرف پرزو الفاظ میں مذمت کرتا ہے بلکہ حکومت سے مطالبہ بھی کرتا ہے۔
کہ اس واقعے میں ملوث تمام کرداروں/قاتلوں کو بے نقاب کرتے ہوئے ان کو فوری گرفتار اور انہیں قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ آئندہ اس قسم کے واقعات رونما نہ ہوں ۔ قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے شاہینہ کاکڑ نے کہا کہ ملک عبیداللہ کاسی کو اغواء کے بعد گزشتہ روز ان کی لاش سرانان سے ملی ہے یہ تین ماہ میں عوامی نیشنل پارٹی کے دوسرے رہنماء کا قتل ہے۔
صوبائی حکومت قاتلوں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دے ۔ مشیر ایکسائز ملک نعیم بازئی نے کہا کہ وہ ملک عبیداللہ کاسی کو ان کی خدمات پر خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جس ظلم و تشدد سے انہیں شہید کیاگیا وہ قابل مذمت ہے واقعے میں ملوث مجرمان کو عبرت ناک سز ادی جائے تاکہ آئندہ کوئی ایسی حرکت کرنے کی جرات نہ کرسکے انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ اور وزیر داخلہ ملک عبیداللہ کاسی کے قاتلوں کی گرفتاری میں خصوصی دلچسپی لیں تاکہ ان کے قاتلوں کو گرفتار کیا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ ظلم و بربریت ختم ہونی چاہئے ۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرئے نے اپنی اور اپنی جماعت کی جانب سے مذمتی قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ عبیداللہ کاسی کو زمانہ طالبعلمی سے جانتا ہوں وہ کوئٹہ کے مالک اور دھرتی کے سپوت تھے 26جون کو انہیں کچلاک میں قومی شاہراہ سے اغواء کیا گیا۔
اور بعدازاں ان کی تشدد زدہ لاش ملی اسی طرح کوئٹہ میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنماء عثمان خان کاکڑ کو شہید کیا گیا ایسے واقعات حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں حکومت عبیداللہ کاسی کے خاندان کو صرف طفل تسلیاں دیتی رہی اورپھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا جس کا قاتل کوئی نہیں ہوتا اس کی قاتل ریاست ہوتی ہے۔
اگر ابھی کسی ملزم کو گرفتار کیا گیا ہے تو اس کا کیا فائدہ کہ جب حکومت ملک عبیداللہ کاسی کو نہیں بچاپائی ہم صوبے کے 70ارب روپے امن وامان پر خرچ کرتے ہیں حکومت دراصل ملک عبیداللہ کاسی کے اغواء کاروں کو ڈھونڈنا ہی نہیں چاہتی تھی انہوں نے کہا کہ سماج دشمن مسلح افراد بھتہ خوروں لینڈ مافیا کے لوگوں کے خلاف کیوں کارروائی نہیں ہوتی۔
ہم نے شہید عثمان خان کاکڑ کی موت کی تحقیقات جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے کروانے کا مطالبہ کیا تھا وہ بھی پورا نہیں ہوا کوئٹہ شہر میں قتل وغارت ڈکیتیاں عام ہوگئی ہیں کئی افراد قتل کئے گئے لیکن ان کے قاتل گرفتار نہیں ہوتے کٹھ پتلی حکومت اور اس کے اداروں کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ وہ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی کریں ۔
انہوں نےکہا کہ پراسیکیوشن کا نام اتنا کمزور ہے کہ ملک عبیداللہ کاسی کے قاتل گرفتار ہو بھی جائیں تو وہ رہا ہوجائیں گے ہمارا مطالبہ ہے کہ ملک عبیداللہ کاسی ، شہید عثمان کاکڑ کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے ۔ کل پشتونخوا ملی عوامی پارٹی شہید عثمان کاکڑ کے چہلم کے جلسے کے بعد سخت اقدامات اٹھائے گی ۔
عوامی نیشنل پارٹی کے رکن صوبائی وزیر زراعت انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ ملک عبیداللہ کاسی چالیس سال تک اے این پی خدائی خدمتگار تحریک کا حصہ رہے ان سے کبھی کسی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچی وہ انتہائی شریف النفس انسان تھے انہوں نے اپنی آبائی زمین کچھ عرصہ قبل ڈی ایچ اے کو بیچی تھی انہیں اپنی ہی جائیداد سے ملنے والی رقم کے لئے اغواء کے بعد قتل کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ انہیں جس بے دردی سے قتل کیا گیا ایسی بربریت انسانیت نہیں حیونیت ہے ہم ان کی لاش کو دیکھ نہیں سکتے تھے ان پر تشدد کرکے بھوکا پیاسا رکھا گیا ہتھکڑیوں اور رسی سے ان کے ہاتھ پائوں باندھے گئے تھے انہوں نے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی نے گزشتہ سو سال کے دوران بے شمار قربانیاں دیں ہم نے پرامن تحریک چلا کر ایک ڈنڈے سے انگریز کے خلاف جہا د کرکے انہیں یہاں سے نکالا 2008ء سے2013ء تک ہمارے 965رہنماء اور کارکن شہید ہوئے۔
ہم نے عوام کی طاقت سے ہمیشہ مقابلہ کیا اور کبھی اپنے پروگرام سے پیچھے نہیں ہٹے میرے والد سمیت جیلانی خان شہید اور دیگر سینکڑوں شہداء ہیں ہمارے لوگوں کو اس لئے نہیںچھوڑا گیا تاکہ ہمیں چپ کروایا جاسکے انہوں نے کہا کہ یہ کون سی غیرت ہے کہ کسی کو اغواء کرنے کے بعد اس کے ہاتھ پائوں باندھ کر قتل کیا جائے اگر اغواء کار اتنے بہادر ہیں۔
تو وہ سامنے آکر ہمارا مقابلہ کیا انہوں نے کہا کہ حکومت نے چالیس دن میں غفلت کا مظاہرہ نہیں کیا اور تسلی دی ، وقت مانگا کہ وہ اغواء کاروں کو ان کے انجام تک پہنچائیں گے وزیر داخلہ نے گزشتہ روز شہید ملک عبیداللہ کاسی کے جنازے میں بھی اس بات کا برملا اظہار کیا ہے کہ وہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے لیکن انہیں وقت دیا جائے ہم وقت دینے کے لئے تیار ہیں۔
اور تفتیش میں ہونے والی پیشرفت سے متعلق بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں سے نہیں پوچھیں گے تاکہ معلومات باہر نہ نکلیں لیکن اطلاع ہے کہ ایک ملزم گرفتار ہوا ہے انہوں نے کہا کہ انکشاف ہوا ہے کہ کوئٹہ میں ایک بہت خطرناک اغواء برائے تاوان کی وارداتیں کرتا ہے بہت سے لوگ خوف اور عزت کی خاطر قانون نافذ کرنے والے اداروں تک نہیں آتے عوام کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے توقع ہے۔
کہ وزیر داخلہ اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے جلد ازجلد مجرموں کو گرفتار کریں گے ۔ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے قادر علی نائل نے ملک عبیداللہ کاسی کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات لمحہ فکریہ ہیں اگرچہ تین سال میں امن وامان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے لیکن ہم عبیداللہ کاسی کے خاندان کے غم کی شدت کو سمجھتے ہیں امن وامان نہ ہونے سے ترقی نہیں ہوگی۔
توقع ہے کہ جلد از جلد قاتلوں کو گرفتار کیا جائے گا ۔ اپوزیشن لیڈر ملک سکندر خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ شریف اور پڑھا لکھا شخص معاشرے میں محفوظ نہیں ہوتا تو اس سے زیادہ مایوسی کی کوئی بات نہیں صاحب حیثیت افراد کی جان و مال کا تحفظ نہیں ہے یہ اس وجہ سے ہورہا ہے کیونکہ آئین اور قانون کی عملداری نہیں ہے اگر دندگی کا معاشرہ ہوگا تو ایسی ہی صورتحال ہوگی۔
ملک عبیداللہ کاسی کو اپنی ہی جائیداد کی رقم کی خاطر شہید کیاگیا جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔ آج بیان آیا ہے کہ سائنٹفک اصولوں پر تحقیقات ہورہی ہیں اگر یہ تحقیقات پہلے تین دن میں ہوجاتیں تو ملک عبیداللہ کاسی کی جان بچ جاتی ۔ انہوں نے کہا کہ ملک عبیداللہ کاسی کے قاتلوں کو عبرت ناک سزا دی جائے اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے۔
تاریخ میں ایسا ظلم نہیں ہواہوگا صوبے میں عثمان خان کاکڑ ، اسدخان اچکزئی کو شہید ، نصراللہ زیرئے کے بیٹے کو ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی عام لوگوں کو زندگی کا حق دیا جائے ۔ بی این پی کے احمد نواز بلوچ نے کہا کہ ہم شہداء کے جنازے اٹھاتے اٹھاتے تھک گئے ہیں ۔ عثمان خان کاکڑ معصوم بچے عبدالقدیر ، فیضان جتک ، ملک عبیداللہ کاسی سمیت کئی افراد کو گزشتہ کچھ ماہ میں شہید کیا گیا ۔
ملک عبیداللہ کاسی سیاسی لیڈر تھے جس انداز میں انہیں شہید کیاگیا وہ انتہائی قابل مذمت ہے او ریہ پہلا یا آخری واقعہ نہیں ہے جب تک جرائم پیشہ افراد موجود ہیں ایسے واقعات ہوتے رہیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ 41دن تک حکومت خواب خرگوش میں تھی شہداء تاابدتاریخ میں زندہ رہیں گے۔صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی نے ملک عبیداللہ کاسی کی شہادت پر تعزیت اور پسماندگان سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے۔
کہا کہ اے این پی شہداء کی جماعت ہے 2008ء سے 2013ء تک خیبرپختونخواء میں جب اے این پی کی حکومت تھی تو اس جماعت کے رہنمائوں اور کارکنوں نے سینکڑوں کی تعداد میں دہشت گردی کے خلاف اپنی جانیں قربان کیں ملک عبیداللہ کاسی کی شہادت ہو یا پنجگور میں بچے کو شہید کئے جانے کا واقعہ ان تمام واقعات کی ہم مذمت کرتے ہیں حکومت اپنے فرائض سے غافل نہیں ایسے واقعات کے ذمہ داروں کے خلاف ضرور کارروائی ہوگی۔
جلد ان واقعات میں ملوث عناصر کا کھوج لگا کر حکومت ان کی سرکوبی کرے گی ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے ملک عبیداللہ کاسی کی شہادت پر اظہار تعزیت اور پسماندگان سے اظہار یک جہتی کرتے ہوئے کہا کہ 26جون کو جب ملک عبیداللہ کاسی کو اغواء کیا گیا تو واقعہ کے بعد ان کے علاقے میں ان کی بازیابی کے لئے کیمپ لگایاگیا۔
جس میں سیاسی جماعتوں سمیت علاقائی معتبرین نے بڑی تعداد میں حصہ لے کر احتجاج کیا اور ملک عبیداللہ کاسی کی بازیابی کے عزم کے ساتھ آواز بلند کرتے رہے مگر افسوس کہ گزشتہ روز انہیں شہید کردیاگیا انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے حالات2004ء سے خراب ہوتے گئے نواب اکبرخان بگٹی کی شہادت کے بعد توحالات کی خرابی کا سلسلہ نہ رک سکا انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں امن وامان کے لئے اربوں روپے خرچ کئے جانے کے باوجود ایسے واقعات تسلسل سے ہورہے ہیں۔
حکومت بتائے کہ اب تک کس واقعے میں ملوث ذمہ داروں کو پکڑا گیا یہاں پر اسدخان اچکزئی اور عثمان خان کاکڑ شہید ہوئے ایسے واقعات تسلسل سے ہورہے ہیں اگر ملک عبیداللہ کاسی کی بازیابی کے لئے سنجیدہ کوششیں کی جاتیں تو آج وہ زندہ ہوتے لیکن ایسے واقعات کے بعد عوام اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے معاملات کو سمجھنے کی کبھی کوشش نہیں کی گئی۔
اور نہ ہی مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ اقدامات کئے گئے ملک عبیداللہ کاسی کو 41دن تک بازیاب نہ کرایا جانا افسوسناک ہے بجٹ میں ہر سال جہاں امن وامان کے لئے اربوں روپے مختص کئے جاتے ہیں وہاں صرف کوئٹہ میں کیمرے لگانے پر بھی اربوں روپے خرچ کئے گئے اس کے باوجود ملک عبیداللہ کاسی کی لاش ملتی ہے۔
ان کے جسم پر لگنے والا ہر زخم ایک سوال تھا انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے ہمیشہ بلوچستان کے مسائل پر آواز بلند کی اسی کے تحت ہم آج ایوان کی کمیٹی بنانے کی صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تحریک لے کر آئے جس کا مقصد بلوچستان کے عوام کو درپیش مسائل پر سنجیدہ بحث کرنا تھا مگر تحریک کی جس طرح مخالفت کی گئی وہ افسوسناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک عبیداللہ کاسی کے اغواء کے بعدا ن کی اپنی جماعت سمیت حکومتی اتحاد میں شامل کوئی جماعت نہ تو یہاں قرار داد لے کر آئی اور نہ ہی کسی نے بات کی انہوںنے کہا کہ میں تعزیتی قرار داد کی حمایت اور حکومتی رویے کی مذمت کرتا ہوں ۔ بی این پی کے اختر حسین لانگو نے مذمتی قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پہلے دن سے سنجیدگی سے کام لیتی تو یہ واقعہ پیش نہ آتا جرائم پیشہ عناصر کو پشت پناہی حاصل ہے۔
منصوبہ بندی کے تحت سیاسی اکابرین کو شہید کیا جارہا ہے ہم مسلسل لاشیں اٹھارہے ہیں حکومت اور اپوزیشن جب دونوں ہی مطالبہ کررہے ہیں تو ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم یہ مطالبہ کس سے کررہے ہیں ہمیں ان عوامل کا جائزہ لے کر نشاندہی کرنی ہوگی کہ آخریہ جرائم پیشہ عناصر کون ہیں ہم عوام کو ڈاکوئوں اور چوروں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔
صوبائی وزیرمیر اسداللہ بلوچ نے ملک عبیداللہ کاسی کی شہادت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی ورکر ہمارا سرمایہ ہیں جنہیں بنانے میں بہت وقت لگتا ہے اگر عوام کو تحفظ حاصل نہیں تو ہم امن وامان پر اتنا بجٹ کیوں خرچ کررہے ہیں انہوںنے استدعا کی کہ پنجگور میں قتل ہونے والے معصوم بچے عبدلقدیر کا نام بھی قرار داد میں شامل کرکے اسے پورے ایوان کی جانب سے مشترکہ طو رپر منظور کیا جائے۔
اس موقع پر جمعیت علماء اسلام کے سید عزیز اللہ آغا، بلوچستان نیشنل پارٹی کے میر حمل کلمتی اور جے یوآئی کے میر زابد علی ریکی نے بھی قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے قاتلوں کی گرفتاری کی کامطالبہ کیا ۔ صوبائی وزیر داخلہ و قبائلی امور میر ضیاء اللہ لانگو نے قرار داد پر بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ عوام کے جان و مال کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے حکومت ملک عبیداللہ کاسی اور پنجگور میں قتل ہونے والے بچے عبدلقدیر سمیت ہر معاملے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ نے ملک عبیداللہ کاسی کی بازیابی میں ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے متعدد اجلاس کئے ۔اور ان کی پارٹی و خاندان کو پیشرفت سے متعلق آگاہ بھی کیا ۔ حکومت نے احتیاط اس لئے برتی تاکہ ملک عبیداللہ کاسی کو کوئی نقصان نہ پہنچے اس واقعے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے قاتلوں کو گرفتار کرنا حکومت کی ذمہ داری اور فرض ہے۔
میں یقین دلاتا ہوں کہ قاتلوں کو انجام تک پہنچا کر اس حوالے سے ایوان کو آگاہ کردیں گے ۔ انہوںنے کہا کہ ملک عبیداللہ کاسی کے اغواء میں ملوث گروہ کی نشاندہی کرکے اس تک پہنچ چکے ہیں اور ایک ملزم کو گرفتار کرلیا گیا ہے چونکہ یہ حساس معاملہ ہے اس لئے ایوان میں مزید تفصیلات نہیں بتاسکتا جلد ہی واقعہ کے سرغنہ تک پہنچ جائیں گے انہوں نے کہا کہ پاکستان سمیت دنیا میں کہیں بھی آئیڈیل حالات نہیں ہیں جس طرح ثناء بلوچ نے ایک ایک کرکے واقعات گنوائے ہم بھی اس طرح گرفتار ملزمان اور جنہیں سزائیں ہوئیں وہ گنوا سکتے ہیں۔
جب 2008ء میں حالات خراب ہوئے او ر ثناء بلوچ یہاں سے باہر چلے گئے تھے اس کی نسبت آج حالات بہتر ہوئے ہیں ۔ جب اے این پی کی حکومت تھی تو اس جماعت کے رہنمائوں اور کارکنوں نے سینکڑوں کی تعداد میں دہشت گردی کے خلاف اپنی جانیں قربان کیں ملک عبیداللہ کاسی کی شہادت ہو یا پنجگور میں بچے کو شہید کئے جانے کا واقعہ ان تمام واقعات کی ہم مذمت کرتے ہیں۔
حکومت اپنے فرائض سے غافل نہیں ایسے واقعات کے ذمہ داروں کے خلاف ضرور کارروائی ہوگی جلد ان واقعات میں ملوث عناصر کا کھوج لگا کر حکومت ان کی سرکوبی کرے گی ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے ملک عبیداللہ کاسی کی شہادت پر اظہار تعزیت اور پسماندگان سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ 26جون کو جب ملک عبیداللہ کاسی کو اغواء کیا گیا۔
تو واقعہ کے بعد ان کے علاقے میں ان کی بازیابی کے لئے کیمپ لگایاگیا جس میں سیاسی جماعتوں سمیت علاقائی معتبرین نے بڑی تعداد میں حصہ لے کر احتجاج کیا اور ملک عبیداللہ کاسی کی بازیابی کے عزم کے ساتھ آواز بلند کرتے رہے مگر افسوس کہ گزشتہ روز انہیں شہید کردیاگیا انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے حالات2004ء سے خراب ہوتے گئے نواب اکبرخان بگٹی کی شہادت کے بعد توحالات کی خرابی کا سلسلہ نہ رک سکا انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں امن وامان کے لئے اربوں روپے خرچ کئے جانے کے باوجود ایسے واقعات تسلسل سے ہورہے ہیں۔
حکومت بتائے کہ اب تک کس واقعے میں ملوث ذمہ داروں کو پکڑا گیا یہاں پر اسدخان اچکزئی اور عثمان خان کاکڑ شہید ہوئے ایسے واقعات تسلسل سے ہورہے ہیں اگر ملک عبیداللہ کاسی کی بازیابی کے لئے سنجیدہ کوششیں کی جاتیں تو آج وہ زندہ ہوتے لیکن ایسے واقعات کے بعد عوام اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے معاملات کو سمجھنے کی کبھی کوشش نہیں کی گئی اور نہ ہی مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ اقدامات کئے گئے ملک عبیداللہ کاسی کو 41دن تک بازیاب نہ کرایا جانا افسوسناک ہے بجٹ میں ہر سال جہاں امن وامان کے لئے اربوں روپے مختص کئے جاتے ہیں وہاں صرف کوئٹہ میں کیمرے لگانے پر بھی اربوں روپے خرچ کئے گئے۔
اس کے باوجود ملک عبیداللہ کاسی کی لاش ملتی ہے ان کے جسم پر لگنے والا ہر زخم ایک سوال تھا انہوںنے کہا کہ اپوزیشن نے ہمیشہ بلوچستان کے مسائل پر آواز بلند کی اسی کے تحت ہم آج ایوان کی کمیٹی بنانے کی صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تحریک لے کر آئے جس کا مقصد بلوچستان کے عوام کو درپیش مسائل پر سنجیدہ بحث کرنا تھا مگر تحریک کی جس طرح مخالفت کی گئی وہ افسوسناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک عبیداللہ کاسی کے اغواء کے بعدا ن کی اپنی جماعت سمیت حکومتی اتحاد میں شامل کوئی جماعت نہ تو یہاں قرار داد لے کر آئی اور نہ ہی کسی نے بات کی انہوںنے کہا کہ میں تعزیتی قرار داد کی حمایت اور حکومتی رویے کی مذمت کرتا ہوں ۔ بی این پی کے اختر حسین لانگو نے مذمتی قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے۔
کہا کہ حکومت پہلے دن سے سنجیدگی سے کام لیتی تو یہ واقعہ پیش نہ آتا جرائم پیشہ عناصر کو پشت پناہی حاصل ہے منصوبہ بندی کے تحت سیاسی اکابرین کو شہید کیا جارہا ہے ہم مسلسل لاشیں اٹھارہے ہیں حکومت اور اپوزیشن جب دونوں ہی مطالبہ کررہے ہیں تو ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم یہ مطالبہ کس سے کررہے ہیں ہمیں ان عوامل کا جائزہ لے کر نشاندہی کرنی ہوگی۔
کہ آخریہ جرائم پیشہ عناصر کون ہیں ہم عوام کو ڈاکوئوں اور چوروں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑ سکتے ۔ صوبائی وزیرمیر اسداللہ بلوچ نے ملک عبیداللہ کاسی کی شہادت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی ورکر ہمارا سرمایہ ہیں جنہیں بنانے میں بہت وقت لگتا ہے اگر عوام کو تحفظ حاصل نہیں تو ہم امن وامان پر اتنا بجٹ کیوں خرچ کررہے ہیں انہوں نے استدعا کی کہ پنجگور میں قتل ہونے والے معصوم بچے عبدلقدیر کا نام بھی قرار داد میں شامل کرکے اسے پورے ایوان کی جانب سے مشترکہ طو رپر منظور کیا جائے ۔
اس موقع پر جمعیت علماء اسلام کے سید عزیز اللہ آغا، بلوچستان نیشنل پارٹی کے میر حمل کلمتی اور جے یوآئی کے میر زابد علی ریکی نے بھی قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے قاتلوں کی گرفتاری کی کامطالبہ کیا ۔ صوبائی وزیر داخلہ و قبائلی امور میر ضیاء اللہ لانگو نے قرار داد پر بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ عوام کے جان و مال کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے۔
حکومت ملک عبیداللہ کاسی اور پنجگور میں قتل ہونے والے بچے عبدلقدیر سمیت ہر معاملے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے انہوںنے کہا کہ وزیراعلیٰ نے ملک عبیداللہ کاسی کی بازیابی میں ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے متعدد اجلاس کئے ۔اور ان کی پارٹی و خاندان کو پیشرفت سے متعلق آگاہ بھی کیا ۔ حکومت نے احتیاط اس لئے برتی تاکہ ملک عبیداللہ کاسی کو کوئی نقصان نہ پہنچے اس واقعے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
قاتلوں کو گرفتار کرنا حکومت کی ذمہ داری اور فرض ہے میں یقین دلاتا ہوں کہ قاتلوں کو انجام تک پہنچا کر اس حوالے سے ایوان کو آگاہ کردیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک عبیداللہ کاسی کے اغواء میں ملوث گروہ کی نشاندہی کرکے اس تک پہنچ چکے ہیں اور ایک ملزم کو گرفتار کرلیا گیا ہے چونکہ یہ حساس معاملہ ہے اس لئے ایوان میں مزید تفصیلات نہیں بتاسکتا جلد ہی واقعہ کے سرغنہ تک پہنچ جائیں۔
گے انہوںنے کہا کہ پاکستان سمیت دنیا میں کہیں بھی آئیڈیل حالات نہیں ہیں جس طرح ثناء بلوچ نے ایک ایک کرکے واقعات گنوائے ہم بھی اس طرح گرفتار ملزمان اور جنہیں سزائیں ہوئیں وہ گنوا سکتے ہیں جب 2008ء میں حالات خراب ہوئے او ر ثناء بلوچ یہاں سے باہر چلے گئے تھے اس کی نسبت آج حالات بہتر ہوئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ عثمان لالا کی موت کی تحقیقات کے لئے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے اخباری بیان کے ذریعے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا تھا جس پر ہم نے کمیشن بنایا ۔
گزشتہ روز مجھے کمیشن کی رپورٹ موصول ہوئی جس میں بتایاگیا کہ کمیشن نے اشتہارات بھی دیئے لیکن کوئی بھی بیان دینے کے لئے نہیں آیا لہٰذا کمیشن کو ختم کردیاگیا ہے انہوںنے کہا کہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی قیادت عثمان کاکڑ کے خاندان کی جانب سے تعاون نہیں کیا گیا پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے لیڈران نے کہا تھا کہ ان کے پاس ثبوت ہیں۔
جو وہ پیش کریں گے لیکن کمیشن میں کوئی بھی پیش نہیں ہوا اور نہ ہی تعاون کیاگیا انہوںنے کہا کہ تعاون کا یہ عالم ہے کہ مطالبہ کرکے خود پیش نہیں ہوئے میں یقین دلاتا ہوں کہ ملک عبیداللہ کاسی کے قاتلوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوں گے۔بعدازاں ایوان کی مشاورت سے قرار داد کے متن میں اغواء ، قتل و غارت گری بشمول پنجگور میں قتل ہونے والے بچے کے قتل کی مذمت کی ترمیم شامل کی گئی اور ایوان نے متفقہ طو رپر مشترکہ مذمتی قرار داد منظور کرلی۔
دریں اثناء بلوچستان اسمبلی نے خاران میں بی سی کے زونل ہیڈ کوارٹر کے قیام اور واشک سمیت بارش سے متاثرہ اضلاع کو آفت زدہ قرار دینے اور عوام کے نقصانات کے ازالے سے متعلق میر زابد ریکی کی قرار داد بھی منظور کرلی اور بعدازاں اجلاس پیرنو اگست تک ملتوی کردیاگیا۔