|

وقتِ اشاعت :   August 7 – 2021

اقلیتی برادری کے افراد اور ان کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے انتہائی افسوس کامقام ہے کہ مندر پر حملہ کیا گیا اور موقع پر موجود ذمہ داران نے کوئی کارروائی نہیں کی۔

افسوس کی بات ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے یہ عذر پیش کیاجارہا ہے کہ مندر کے قریب 70ہندو گھروں کو تحفظ فراہم کیاجارہا تھا،کیا مزید سیکیورٹی طلب نہیں کی جاسکتی تھی کہ مندر پر حملے کو فوری طور پر روکا جاسکے۔گزشتہ چند برسوں کے دوران ہندو برادری کے ساتھ دلخراش واقعات پیش آرہے ہیں۔

جس سے اچھا تاثر دنیا میں ہمارے لئے نہیں جارہا۔ یہ ایک اچھا اقدام ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے مندر حملہ کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم جاری کردیا۔ گزشتہ روزرحیم یار خان مندر حملہ ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے کی جس میں آئی جی پنجاب پولیس انعام غنی، چیف سیکرٹری پنجاب اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس آف پاکستان نے آئی جی پنجاب انعام غنی اور چیف سیکرٹری کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ مندر پر حملہ ہوا، انتظامیہ اور پولیس کیا کر رہی تھی۔آئی جی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ اے سی اور اے ایس پی موقع پر موجود تھے، انتظامیہ کی ترجیح مندر کے آس پاس 70 ہندو گھروں کا تحفظ تھا۔جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ اگر کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کام نہیں کر سکتے تو انہیں عہدے سے فارغ کر دیں۔آئی جی پنجاب انعام غنی نے عدالت کو بتایا کہ مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات لگائی گئی ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک 8 سال کے بچے کی وجہ سے یہ سارا واقعہ ہوا، 8 سال کے بچے کو مذہب کے بارے میں کیا پتا؟ اس واقعے سے پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوئی، پولیس نے ماسوائے تماشہ دیکھنے کے کچھ نہیں کیا۔

جسٹس قاضی امین نے آئی جی پنجاب پولیس نے استفسار کیا کہ کیا مقدمے میں کوئی گرفتاری کی گئی؟ جس پر انعام غنی نے بتایا کہ مندر حملہ کیس میں ابھی تک کوئی گرفتاری نہیں ہوئی۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل سہیل محمود نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ وزیراعظم عمران خان نے بھی معاملے کا نوٹس لے لیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وزیر اعظم اپنا کام جاری رکھیں، ہم کیس کا قانونی پہلو دیکھیں گے۔جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیئے کہ پولیس اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام ہوئی جبکہ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ واقعے کو 3 دن ہو گئے، ایک بندہ پکڑا نہیں گیا۔جسٹس قاضی امین نے کہا کہ پھر پولیس ملزمان کی ضمانت اور صلح کروائے گی، سرکاری پیسے سے مندر کی تعمیر ہو گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ واقعے پر پولیس کی ندامت دیکھ کر لگتا ہے پولیس میں جوش و ولولہ نہیں ہے، پولیس کے پروفیشنل لوگ ہوتے تو اب تک معاملات حل ہو چکے ہوتے، مندر گرا دیا، سوچیں ہندو برادری کے دل پر کیا گزری ہو گی، سوچیں مسجد گرا دی جاتی تو مسلمانوں کا کیا ردعمل ہوتا؟سپریم کورٹ نے چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کو واقعے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ملزمان کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے اور مندر کی مرمت اور بحالی کے لیے پیسے ملزمان سے وصول کیے جائیں۔

عدالت نے چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب سے ملزمان کے خلاف کارروائی کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 13اگست تک ملتوی کر دی اور حکم دیا کہ پنجاب میں مذہبی ہم آہنگی کے لیے امن کمیٹیاں قائم کی جائیں۔اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے شرپسندی پر اکسانے والوں کے خلاف بھی کارروائی کا حکم دیا اور کہا کہ دندناتے پھرتے ملزمان ہندو کمیونٹی کے لیے مسائل پیدا کر سکتے ہیں، یقینی بنایا جائے کہ آئندہ ایسے واقعات نہ ہوں۔دوسری جانب رحیم یار خان کے علاقے بھونگ میں مندر میں توڑ پھوڑ اور موٹر وے بلاک کرنے پر 150 سے زائد ملزمان کے خلاف 3 مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔

اب اس بات کو یقینی بنایاجائے کہ جلد ازجلد ملزمان کو گرفتار کیاجائے اور کوتاہی برتنے والے آفیسران کیخلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ دوبارہ اس طرح کا واقعہ پیش نہ آئے جس سے پاکستان کا امیج خراب ہوجائے۔ آج بھی پاکستان میں بڑی تعداد میں ہندوبرادری سمیت دیگر اقلیت عرصہ دراز سے رہائش پذیر ہیں اور آپس میں سب بھائی چارگی کے ساتھ رہتے ہیں لہٰذا اس طرح کی منافرت پھیلانے والے عناصر کی بروقت سرکوبی ضروری ہے تاکہ دوبارہ کوئی شرپسند اس طرح کے اقدام سے گریز کرے۔ امید ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ذریعے ملوث ملزمان کو نہ صرف سزا دی جائے گی بلکہ اقلیتی برادری کی عبادت گاہوں کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔