پسنی : کے سمندری حدود میں متعدد نسل کی مچھلیاں نایاب،غیر قانونی فشنگ کا بر وقت تدارک نہ ہو نیکی وجہ سے ماہیگیر فاقہ کشی کا شکار ہیں۔پسنی کے متعدد ماگیر گوادر، پیشکان، جیونی و دیگر علاقوں میں ماہیگیری و تلاش روز گار کے لیئے نقل مکانی پر مجبور ،
پسنی میں ماہیگیروں کا واحد ذریعہ معاش روز بہ روز خطرے میں پڑتا دکھائی دے رہا ہے ۔ متعدد کشتیاں اکثر خالی ہاتھ لوٹ آتے ہیں جسکی وجہ سے انکے لیئے مسقتبل میں مزید فاقہ کشی کا خطرہ یے
ساحلی علاقوں میں بے دریغ غیر قانونی فشنگ و سمندری حیات کی نسل کشی کیخلاف بر وقت کاروائی نہ ہونیکی وجہ سے متعدد ماہیگیر گھرانے اس وقت نان شبینہ کا محتاج ہیں ۔
پسنی شہر کی آبادی ایک لاکھ کے لگ بگ ہے اور ان کے روزگار کا براہ راست یا بالواسطہ تعلق ماہی گیری سے جڑا ہے۔ایک اندازے کے مطابق پسنی میں 20 سے 30 ہزار ماہی گیر اور ان کے خاندان اپنی معاش کے لیے ماہی گیری کے شعبے پر منحصر ہیں۔
پسنی کے سمندری حدود میں حالیہ دنوں مختلف نسل کی مچھلیوں کے روز بہ روز نایاب ہونیکی وجہ سے ماہیگیر زہنی کوفت کا شکار ہوتے چلے جارہے ہیں اور پسنی سے تعلق رکھنے والے بہت سارے ماہیگیر دیگر ساحلی علاقوں میں تلاش روزگار کے لیئے سرگرداں و نقل مکانی کر رہے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق مکران کا ساحلی شہر پسنی جو گزشتہ ادوار میں پورے پاکستان میں ماہیگیری و مختلف اقسام کے مچھلیوں کا گڈھ و صنعت سمجھا جاتا تھا اور جہاں سے روزانہ کی بنیاد پر ماہیگیر ٹنوں کے حساب سے مچھلی کا شکار کرکے خوشحالی کی زندگی بسر کرتے تھے اور پسنی شہر پاکستان کے ساحلی علاقوں میں ماہی گیری کے شعبے میں قومی معیشت میں نمایاں شراکت کیساتھ جی ڈی پی میں نمایاں حصہ ڈالتا رہا ہے مگر آج پسنی کے سمندری حدود میں ہر قسم و نسل کی مچھلیاں نایاب ہونیکی وجہ سے ماہیگیر فاقہ کشی کا شکار ہیں۔
متعدد
اکثر مقامی ماہیگیروں کا کہنا ہیکہ ہم آئے روز دور دور تک شکار کے لیئے نکلتے ہیں اس کے باوجود اکثر خالی ہاتھ واپس گھر لوٹتے ہیں جسکی وجہ سے انکے بچے فاقوں پر مجبور ہیں اور انکے مطابق پسنی ساحل کی تباہی کی اصل وجوہات غیر قانونی ٹرالنگ ہیں کہ پچھلے کہیں ادوار سے سندھ کے ٹرالر دیدہ دلیری سے پسنی کے سمندری حدود میں غیر قانونی طور پر سمندری حیات کی نسل کشی میں ملوث ہیں جسکی بروقت تدارک نہ ہونے کی وجہ سے آج پسنی کا ساحلی پٹی و تمام تر شکار کے حدود تباہی کے دہانے پر ہیں۔
مزید انہوں نے کہا ہیکہ اگر اب بھی اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو ممکن ہیکہ ہزاروں گھرانے معاشی بدحالی بےروزگاری و فاقہ کشی پر مجبور ہونگے جسکی تدارک کے لیئے صوبائی حکومت کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سخت سے سخت اقدامات اٹھا کر ہمارے گھروں کے چولوں کو بجنے سے بچائیں کہ ان کا واحد ذریعہ معاش یہی ماہیگیری ہے ۔
واضع رہے کہ گزشتہ دنوں چیف سکٹری بلوچستان نے دورہ پسنی میں کھلی کچہری کے ذریعے ماہیگیروں کے مسائل سنے اور فشریز افسران و سکٹری فشریز شاہد سلیم کو سندھ کے غیر قانونی ٹرالر و ٹرالنگ کے خلاف سخت کاروائی کرنے کی تلقین کی اور ساتھ ہی ایک ہفتے قبل سابق سکٹری فشریر شاہد سلیم کی کاروائی سے غیر قانونی ٹرالنگ میں ملوث، بھتہ خوری و معاون ہونیکے الزام میں 17 سے زاہد افسران و اہلکاروں کو نوکری سے برخاست کردیا گیا اور دوسرے ہی دن سیکٹری فشریز شاہد سلیم کو انکے عہدے سے ہٹالیا گیا ۔
باخبر ذرائع کے مطابق غیر قانونی ٹرالنگ کی پشت پناہی میں ایک عام گروہ نہیں بلکہ ایک مضبوط مافیا ہے جسکی وجہ سے انکے خلاف سخت ترین و فیصلہ کن کاروئی و اس کا قلعہ قمع کرنے کے اب تک کسی قسم کے آثار دکھائی نہیں دیتے ۔