کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن اراکین نے کوئٹہ میں بم دھماکوں کی مذمت کرتے ہوئے ان کیمرہ بریفننگ دینے کا مطالبہ کردیا جبکہ صوبائی وزیر نور محمد دمڑ نے انکشاف کیا ہے کہ ہرنائی میں گرفتار ہونے والے شخص کی رہائی کے لئے پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کے رکن نصر اللہ زیرے نے دبائوڈالا، صوبائی وزیر نور محمد دمڑ اور نصر اللہ زیرے کے درمیان تند و تیز جملوں کا تبادلہ ڈپٹی اسپیکر نے نصر اللہ زیرے کا مائیک بند کروا دیا۔
پیر کو بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ایک گھنٹہ پچاس منٹ کی تاخیر سے ڈپٹی سپیکر سردار بابرخان موسیٰ خیل کی زیر صدارت شروع ہوا ۔ اجلاس کے آغاز پر پشتونخوا میپ کے رکن اسمبلی نصراللہ زیرئے نے گزشتہ روز بلوچستان اسمبلی کے سامنے ہونے والے بم دھماکے میں شہید اہلکاروں کے لئے فاتحہ خوانی کی استدعا کی جس پر ایوان میں فاتحہ خوانی کی گئی۔
پوائنٹ آف آرڈر پر پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے اسمبلی کے قریب ہونے والے بم دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز اسمبلی کے قریب موٹرسائیکل میں نصب بم دھماکے میں دو پولیس اہلکار شہید جبکہ19زخمی ہوئے ہیں اسی طرح سریاب روڈ پر ہونے والے دستی بم حملے میں ایک شخص زخمی ہوا ہے انہوںنے کہا کہ صوبائی حکومت امن کے قیام میں ناکام ہوچکی ہے۔
ایک ماہ کے اندر شہید عثمان کاکڑ ، ملک عبیداللہ کاسی کی شہادت کے واقعات رونما ہوئے اور آج بھی لوگ اغواء ہیں اور اغواء کار ان کے خاندان سے پیسوں کا مطالبہ کررہے ہیں حکومت کہا ں ہے ؟انہوںنے کہا کہ بلوچستان میں پی ایس ڈی پی کی حکومت ہے اپنی جیب میں پیسے ڈال رہے ہیں حکومت کو عوام کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔
میرے بیٹے کے اغواء کے بعد کہا گیا کہ کیمرے کام نہیں کررہے حکومت عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہے اس ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے استعفیٰ دے ۔ بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیرا حمد شاہوانی نے کہا کہ گزشتہ روز ریڈ زون میں سخت سیکورٹی کے باوجود دلخراش واقعہ کا رونما ہونا لمحہ فکریہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ ہائوس ، گورنر ہائوس ، بلوچستان ہائیکورٹ ،ارکان اسمبلی ، صوبائی وزراء اور ججز کی رہائش گاہوں کے قریب اس واقعے کا رونما ہونا باعث تشویش ہے واقعہ سے متعلق ان کیمرا بریفنگ دی جائے تاکہ ہمیں پتہ چل سکے کہ اس کے پیچھے کون سے عناصر کا رفرما ہیں ۔ صوبائی وزیر واسا و پی ایچ ای نور محمد دمڑ نے گزشتہ روز ہونے والے بم دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے۔
اے این پی کے رہنماء ملک عبیداللہ کاسی کے اغواء و قتل میں ملوث ملزمان کے خلاف کامیاب کارروائی پر پولیس کی کارکردگی کو خراج تحسین پیش کیا انہوںنے کہا کہ ملک عبیداللہ کاسی کے واقعے پر اے این پی نے روز اول سے اس معاملے میں سماج دشمن عناصر کو ملوث قرار دیا اور حکومت و انتظامیہ کے ساتھ بھرپور تعاون کیا جس کے نتیجے میں پولیس اغواء کاروں کی سرکوبی میں کامیاب ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ اگر اسی طرح سیکورٹی اداروں پر اعتماد کااظہار کرتے ہوئے ان کے ساتھ تعاون کیا جائے تو وہ کبھی ناکام نہیں ہوں گے ۔ انہوںنے کہا کہ ہرنائی میں ہندو برادری کے ہاں ڈکیتی کے واقعات رونماہوئے ہیں پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ملزمان کو گرفتار کیا ہے جو لوگ گرفتار ہوئے ہیں ان کا تعلق پشتونخوا میپ سے ہے۔
جب انہیں گرفتار کیا گیا تو پشتونخوا میپ کے رکن اسمبلی نے ڈی پی او کو فون کیا کہ ملزمان کو رہا کیا جائے جب پولیس نے انہیں رہا نہیں کیا تو معزز رکن نے اسمبلی کے فلور پر پولیس کو تنقید کا نشانہ بنایا انہوںنے کہا کہ سماج دشمن عناصر کو سپورٹ فراہم کرنا درست نہیں ۔ اگر دیکھا جائے تو صرف 2015ء میں ہرنائی میں ڈکیتی کی چھ مختلف وارداتیں ہوئیں۔
پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے نور محمد دمڑ کے موقف کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ صوبائی وزیر غلط بیانی کررہے ہیں میں نے ڈی پی او کو فون کیا مگر ان سے رابطہ نہیں ہوسکا جس شخص کو گرفتار کیا گیا اس کے پاس لائسنس یافتہ اسلحہ تھا اس معاملے کو جب میں نے اسمبلی میں اٹھایا تو ڈی پی او نے مجھے فون کرکے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔
جس پر صوبائی وزیر نور محمد دمڑ نے کہا کہ نصراللہ زیرئے نے ڈی پی او کو فون کرنے کا اعتراف کیا ہے انہوںنے کہا کہ ہرنائی میں ہونے والے واقعات میں پشتونخوا میپ کے کارکن ملوث ہیں جب پولیس گرفتار کرتی ہے تو پولیس کو فون کیا جاتا ہے کہ انہیں رہا کیا جائے جب پولیس رہا نہیں کرتی تو پولیس کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اس دوران نصراللہ زیرئے اور نور محمد دمڑ کے مابین تند وتیز جملوں کا تبادلہ ہوا جس پرڈپٹی سپیکر نے نصراللہ زیرئے کا مائیک بند کرادیا ۔دریںاثناء بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں مسودات قوانین کو اسمبلی قوائد کے تقاضوں سے مستثنی قرار دیکر منظور کروانے پر اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈوکیٹ کا احتجاج اپوزیشن نے اجلاس سے واک آئوٹ کیا۔
حکومت نے دو قوانین منظور جبکہ ایک کو متعلقہ کمیٹی کے سپرد کردیا، ڈپٹی اسپیکر نے گزشتہ تین سال کے دوران اقلیتی برادری کو دی جانے والی رقم کی تفصیلات طلب کرلیں ، پیر کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن لیڈر ملک سکندرخان ایڈووکیٹ نے حکومت کی جانب سے قوانین کو استثنیٰ دلوا کر منظور کروانے پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ قوانین پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔
حکومت تمام قوانین کو بلڈوز کرتی ہے قانون پیش ہونے کے بعد اسے متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کیا جاتا ہے تاکہ اس پر بحث ہو اور جو ضروری ترامیم ہیں وہ کی جاسکیں لیکن یہاں پر ہرمسودہ قانون کو اسمبلی قواعد وضوابط سے استثنیٰ دلوا کر منظور کرلیا جاتا ہے اگر یہی کرنا ہے توچیف سیکرٹری یا وزیراعلیٰ خود ہی قانون جاری کردیا کریں ۔
اس موقع پر ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ مسودات قانون پیش کرتے ہیں اگر ارکان کی مطلوبہ تعداد نے انہیں استثنیٰ دے دیا تو یہ اکثریت کا فیصلہ ہوگا اس موقع پر اپوزیشن ارکان نے شدید احتجاج کیا اور ایجنڈے کی کاپیاں بھی ایوان میں اچھال دیں اور اجلاس سے احتجاجاً واک آئوٹ کیا ۔ بعدازاں پارلیمانی سیکرٹریز ماہ جبین شیران ، بشریٰ رند اور لالا عبدالرشید بلوچ نے متعلقہ وزراء جانب سے ایوان میں بلوچستان بورڈ آف ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل ایجوکیشن کا مسودہ قانون مصدرہ2021(مسودہ قانون نمبر20مصدررہ2021ء)، بلوچستان آرمزکا مسودہ قانون مصدرہ2021(مسودہ قانون نمبر21مصدررہ2021ء)اوربلوچستان ٹرسٹ کا(ترمیمی ) مسودہ قانون مصدرہ2021(مسودہ قانون نمبر20مصدررہ2021ء)ایوان میں پیش کیا ۔
بلوچستان بورڈ آف ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل ایجوکیشن اور ربلوچستان ٹرسٹ کا(ترمیمی ) مسودہ قانون بلوچستان اسمبلی کے قاعدہ نمبر84اور(2)85کے تقاضوں سے مستثنیٰ قراردے کر منظور کر لئے گئے جبکہ بلوچستان آرمز کا مسودہ قانون ایوان کی متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیاگیا ۔
اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران اقلیتی برادری میں رقم کی تقسیم کے معاملے پر اپوزیشن مکھی شام لعل لاسی اور خلیل جارج کے درمیان تند وتیز جملوں کا تبادلہ ہوا ۔ جس پر ڈپٹی سپیکر سردار بابرخان موسیٰ خیل نے گزشتہ تین سال کے دوران اقلیتی برادری کو دی جانے والی رقم کی تفصیلات طلب کرلیں۔